اپنے پندار کو کھویا نہیں جاتا مجھ سے
اپنے پندار کو کھویا نہیں جاتا مجھ سے
میں جو چاہوں بھی تو رویا نہیں جاتا مجھ سے
مبتلا ہو مرا ہمسایہ کسی غم میں اگر
جاگتا رہتا ہوں سویا نہیں جاتا مجھ سے
حادثوں میں بھی رہی ہے مرے ہونٹوں پہ ہنسی
غم کو خوشیوں میں سمویا نہیں جاتا مجھ سے
قصۂ ظلم میں کیسے لکھوں کب تک لکھوں
اب قلم خوں میں ڈبویا نہیں جاتا مجھ سے
ایک جگنو بھی تو سجتا نہیں پلکوں پہ شررؔ
ایک موتی بھی پرویا نہیں جاتا مجھ سے