ہے یقیناً یہ کوئی راز مشیت ورنہ

ہے یقیناً یہ کوئی راز مشیت ورنہ
لوگ کرتے ہی نہیں شہر سے ہجرت ورنہ


اس کی نفرت کا دیا ہم نے محبت سے جواب
کم نہ تھی خون میں کچھ اپنے بھی حدت ورنہ


تجھ کو دیکھا تو یقیں ہو گیا اے مست خرام
دیکھتا آنکھ سے کون اپنی قیامت ورنہ


خون میں سب کے ہے قابیل کے خوں کا عنصر
نسل آدم کے لیے وجہ ہلاکت ورنہ


اے شررؔ میں نے ہی سورج سے ملائی آنکھیں
کس نے کی میرے سوا ایسی جسارت ورنہ