جو اب سے پہلے تھا لہجہ نہیں وہ آج مرا
جو اب سے پہلے تھا لہجہ نہیں وہ آج مرا
نہ جانے روٹھ گیا مجھ سے کیوں مزاج مرا
بنا دیا ہے تجھے محنتوں سے رشک ارم
زمین یہ ہے ترے واسطے خراج مرا
جہاں معاف کیا قاتلوں کو منصف نے
وہیں پہ درج کیا میں نے احتجاج مرا
ہر اک وجود میں میں ہوں حرارتیں بن کر
ہے زندگی کے عناصر میں امتزاج مرا
مری رعایا کبھی مجھ سے منحرف نہ ہوئی
شررؔ ہمیشہ رہا روشنی پہ راج مرا