خموشی گفتگو ہے بے زبانی ہے زباں اس کی
خموشی گفتگو ہے بے زبانی ہے زباں اس کی میں سمجھا تھا کہ مجھ سے مختلف ہے داستاں اس کی مرے ہر سمت پھیلی چاندنی ہے یا حصار اس کا مرا احساس ہے یا رقص میں پرچھائیاں اس کی میں خود کو جیسے اپنے پاس ہی محسوس کرتا ہوں مرے الفاظ میں رس گھولتی ہیں شوخیاں اس کی کہاں میری طرح سب کو ملا زخموں ...