Imtiyaz Ahmad Qamar

امتیاز احمد قمر

امتیاز احمد قمر کے تمام مواد

7 غزل (Ghazal)

    خموشی گفتگو ہے بے زبانی ہے زباں اس کی

    خموشی گفتگو ہے بے زبانی ہے زباں اس کی میں سمجھا تھا کہ مجھ سے مختلف ہے داستاں اس کی مرے ہر سمت پھیلی چاندنی ہے یا حصار اس کا مرا احساس ہے یا رقص میں پرچھائیاں اس کی میں خود کو جیسے اپنے پاس ہی محسوس کرتا ہوں مرے الفاظ میں رس گھولتی ہیں شوخیاں اس کی کہاں میری طرح سب کو ملا زخموں ...

    مزید پڑھیے

    ہر ایک لمحے سے ہر لمحہ پوچھتا ہوں میں

    ہر ایک لمحے سے ہر لمحہ پوچھتا ہوں میں ہوں کتنی دور ابھی کتنا آ گیا ہوں میں مری تلاش مکمل ہو تو اگر مل جائے کہ اپنے آپ کو مدت سے ڈھونڈھتا ہوں میں یہ نارسائی کا دکھ بھی مجھے عجیب ملا کہ تجھ کو پا کے تجھی کو پکارتا ہوں میں کوئی تو ہے جو مرے آس پاس رہتا ہے وہ مدعا ہے مرا اس کا مدعا ...

    مزید پڑھیے

    خوابوں کی انجمن میں نہ ویرانیوں میں تھا

    خوابوں کی انجمن میں نہ ویرانیوں میں تھا دل کا سرور شوق کی نادانیوں میں تھا تہذیب نو شعور کا آئینہ بن گئی لیکن وہ انبساط جو نادانیوں میں تھا ہونٹھوں پہ پیاس چہروں پہ حرماں کی گرد تھی کیا اہتمام بے سر و سامانیوں میں تھا نفرت کی آگ ذہن کا آسیب بن گئی شعلوں کا رقص اب کے حدیٰ ...

    مزید پڑھیے

    ہم نشیں اب مری تنہائی کی تنہائی ہے

    ہم نشیں اب مری تنہائی کی تنہائی ہے اب شب و روز میں حد درجہ شناسائی ہے تجھ سے ملنے کی خوشی ہے نہ بچھڑنے کا الم زندگی مجھ کو یہ کس موڑ پہ لے آئی ہے ہر قدم آئنہ دیوانہ ہوا جاتا ہے ہر جگہ کس کا یہ عکس رخ زیبائی ہے آج پھر زخم مرے دل کا لہو روتا ہے آج پھر ان کی گلی ہو کے صبا آئی ہے چاہئے ...

    مزید پڑھیے

    کنج دل میں تری چاہت کے سوا کچھ بھی نہیں

    کنج دل میں تری چاہت کے سوا کچھ بھی نہیں آئنہ خانہ میں حیرت کے سوا کچھ بھی نہیں ہر قدم پر منتظر مجبوریاں محرومیاں زندگی خوش نام تہمت کے سوا کچھ بھی نہیں پوچھتے کیا ہو مآل آمد فصل بہار سارا گلشن نقش عبرت کے سوا کچھ بھی نہیں گردش ایام تو ناحق پشیماں ہو گئی مسکرانا میری عادت کے ...

    مزید پڑھیے

تمام

4 نظم (Nazm)

    بے وفا کیسے بنوں

    خلوت غم کے دریچوں پہ یہ دستک کیسی اے مری فخر وفا رشک چمن جان حیا دامن چشم میں ہے نامۂ الفت جب سے دل کا ہر سویا ہوا زخم مرا جاگ اٹھا جاں سپاری کی ادا مجھ کو سکھانے والے آج یہ حکم کہ میں پیار کا چرچا نہ کروں گھٹ کے رہ جاؤں پہ رخسار تری یادوں کے اپنی تخیل کی آنکھوں سے بھی چوما نہ ...

    مزید پڑھیے

    سپنے

    آخر کب تک تم سپنوں کے شیش محل میں رنگ برنگی قوس قزح سی یادوں کی ایک چادر تانے سوئے رہو گے کھوئے رہو گے ایک ذرا یہ بھی تو سوچو کل کوئی شریر سا بچہ سپنوں کے اس شیش محل پر کھیل ہی کھیل میں بس اک پتھر دے مارے تو پھر کیا ہوگا آنکھیں کھولو سپنے تو آخر سپنے ہیں ان کا کیا ہے ماضی کے بیتے ...

    مزید پڑھیے

    ست رنگی قوس قزح کے نام

    میں کہ اک جنت ارضی سے چلا آیا ہوں بیتی یادوں کی مہک دل میں چھپا لایا ہوں جس جگہ کوثر و تسنیم کی نہریں تھیں رواں جس جگہ اپنی تمناؤں کی دنیا تھی جواں نور ایمن تھا ثریا کی نگاہوں میں جہاں شاخ نسرین تھی فرحین کی بانہوں میں جہاں جس جگہ فرحت و نزہت کی ہوا چلتی تھی بن کے تزئین در و بام صبا ...

    مزید پڑھیے

    موسیٰ کی تلاش

    اپنے چہروں پہ صحرا کے رقصاں بگولے لیے اپنے لب کو سیے اپنی آنکھوں میں محرومیوں کو سمیٹے ہوئے اپنی پلکوں کی سہمی ہوئی چلمنوں میں چیختی تشنگی کو چھپائے زندگی تیری یہ زندہ لاشیں رینگتی پھر رہی ہیں در بہ در کوچہ کوچہ گلی در گلی از افق تا افق کوئی عیسیٰ نفس کوئی شنکر صفت ان کے چہروں پہ ...

    مزید پڑھیے