سپنے

آخر کب تک
تم سپنوں کے شیش محل میں
رنگ برنگی
قوس قزح سی
یادوں کی ایک چادر تانے
سوئے رہو گے کھوئے رہو گے
ایک ذرا یہ بھی تو سوچو
کل کوئی شریر سا بچہ
سپنوں کے اس شیش محل پر
کھیل ہی کھیل میں بس اک پتھر
دے مارے تو پھر کیا ہوگا
آنکھیں کھولو
سپنے تو آخر سپنے ہیں
ان کا کیا ہے
ماضی کے بیتے لمحوں کو
مٹھی میں کس نے پکڑا ہے