Imtiyaz Ahmad Qamar

امتیاز احمد قمر

امتیاز احمد قمر کی غزل

    خموشی گفتگو ہے بے زبانی ہے زباں اس کی

    خموشی گفتگو ہے بے زبانی ہے زباں اس کی میں سمجھا تھا کہ مجھ سے مختلف ہے داستاں اس کی مرے ہر سمت پھیلی چاندنی ہے یا حصار اس کا مرا احساس ہے یا رقص میں پرچھائیاں اس کی میں خود کو جیسے اپنے پاس ہی محسوس کرتا ہوں مرے الفاظ میں رس گھولتی ہیں شوخیاں اس کی کہاں میری طرح سب کو ملا زخموں ...

    مزید پڑھیے

    ہر ایک لمحے سے ہر لمحہ پوچھتا ہوں میں

    ہر ایک لمحے سے ہر لمحہ پوچھتا ہوں میں ہوں کتنی دور ابھی کتنا آ گیا ہوں میں مری تلاش مکمل ہو تو اگر مل جائے کہ اپنے آپ کو مدت سے ڈھونڈھتا ہوں میں یہ نارسائی کا دکھ بھی مجھے عجیب ملا کہ تجھ کو پا کے تجھی کو پکارتا ہوں میں کوئی تو ہے جو مرے آس پاس رہتا ہے وہ مدعا ہے مرا اس کا مدعا ...

    مزید پڑھیے

    خوابوں کی انجمن میں نہ ویرانیوں میں تھا

    خوابوں کی انجمن میں نہ ویرانیوں میں تھا دل کا سرور شوق کی نادانیوں میں تھا تہذیب نو شعور کا آئینہ بن گئی لیکن وہ انبساط جو نادانیوں میں تھا ہونٹھوں پہ پیاس چہروں پہ حرماں کی گرد تھی کیا اہتمام بے سر و سامانیوں میں تھا نفرت کی آگ ذہن کا آسیب بن گئی شعلوں کا رقص اب کے حدیٰ ...

    مزید پڑھیے

    ہم نشیں اب مری تنہائی کی تنہائی ہے

    ہم نشیں اب مری تنہائی کی تنہائی ہے اب شب و روز میں حد درجہ شناسائی ہے تجھ سے ملنے کی خوشی ہے نہ بچھڑنے کا الم زندگی مجھ کو یہ کس موڑ پہ لے آئی ہے ہر قدم آئنہ دیوانہ ہوا جاتا ہے ہر جگہ کس کا یہ عکس رخ زیبائی ہے آج پھر زخم مرے دل کا لہو روتا ہے آج پھر ان کی گلی ہو کے صبا آئی ہے چاہئے ...

    مزید پڑھیے

    کنج دل میں تری چاہت کے سوا کچھ بھی نہیں

    کنج دل میں تری چاہت کے سوا کچھ بھی نہیں آئنہ خانہ میں حیرت کے سوا کچھ بھی نہیں ہر قدم پر منتظر مجبوریاں محرومیاں زندگی خوش نام تہمت کے سوا کچھ بھی نہیں پوچھتے کیا ہو مآل آمد فصل بہار سارا گلشن نقش عبرت کے سوا کچھ بھی نہیں گردش ایام تو ناحق پشیماں ہو گئی مسکرانا میری عادت کے ...

    مزید پڑھیے

    کبھی نشاط کبھی درد بے کراں گزرے

    کبھی نشاط کبھی درد بے کراں گزرے بس ایک مجھ پہ ہی لمحات امتحاں گزرے پہنچ سکے نہ وہاں فکر و آگہی والے تری نگاہ کے مارے جہاں جہاں گزرے مری وفا کا فسانہ ترے فسانے میں عجب نہیں کہ یہی زیب داستاں گزرے کہیں جھکی نہ جبیں تیرے سنگ در کے سوا رہ نیاز سے کتنے ہی آستاں گزرے جو تیری یاد کی ...

    مزید پڑھیے

    کہیں اولوں کی برساتیں کہیں موتی کی سوغاتیں (ردیف .. ی)

    کہیں اولوں کی برساتیں کہیں موتی کی سوغاتیں نہایت مصلحت اندیش ہیں اب بدلیاں اس کی بلا شبہ وہی قاتل ہے اپنے عہد کا لیکن شہادت کون دے کہ سامنے ہے وردیاں اس کی شہیدان وفا بوئے گئے ہیں اب کے موسم میں کہ لالہ زار ہو جائیں لہو سے کھیتیاں اس کی لہو آشام دریا اس طرح ہم سر خرو اترے کہ اب ...

    مزید پڑھیے