بے وفا کیسے بنوں
خلوت غم کے دریچوں پہ یہ دستک کیسی
اے مری فخر وفا رشک چمن جان حیا
دامن چشم میں ہے نامۂ الفت جب سے
دل کا ہر سویا ہوا زخم مرا جاگ اٹھا
جاں سپاری کی ادا مجھ کو سکھانے والے
آج یہ حکم کہ میں پیار کا چرچا نہ کروں
گھٹ کے رہ جاؤں پہ رخسار تری یادوں کے
اپنی تخیل کی آنکھوں سے بھی چوما نہ کروں
بھول جاؤں ترے ہونٹوں کے چھلکتے ساغر
تیری آنکھوں کی مئے تاب سے توبہ کر لوں
نور پیشانی کا ہونٹوں سے چرانا کیسا
ابروؤں کی جھکی محراب میں آیا نہ کروں
خواہش سایہ گیسوئے پریشاں ہی نہیں
جنت عارض و لب کی بھی تمنا نہ کروں
اپنی تنہائی کے سنسان در و بام کبھی
میں ترے حسن تصور سے سجایا نہ کروں
تلخیاں زیست کی ہر طور چھپاؤں سب سے
خوشبوئیں یاد کی سانسوں میں بسایا نہ کروں
خواہ تڑپے کہ دھڑکنے کی ادا تک بھولے
دھڑکنیں دل کی مگر تم کو سنایا نہ کروں
بھول جاؤں میں وفاداری ارباب وفا
خود کو پتھر کا تراشا ہوا انساں سمجھوں
جس کو احساس کی جذبات کی دولت نہ ملے
خود کو ایسی ہی کسی جنس کا حیواں سمجھوں
تو اگر خوش ہے اسی میں تو کوئی بات نہیں
جذبۂ شوق کو جیسے بھی ہو سمجھاؤں گا
تیری چاہت تیری الفت کو بھلانے کے لئے
ہو سکے گا تو میں اب جاں سے گزر جاؤں گا
بھول جاؤں گا کہ تم نے کبھی چاہا تھا مجھے
بھول جاؤں گا کہ تم مجھ پہ فدا رہتے تھے
تم تڑپ اٹھتے تھے ہلکی سی اداسی پہ مری
مہرباں مجھ پہ سدا بن کے خدا رہتے تھے
ٹوٹ کر چاہنا سیکھا ہے تری آنکھوں سے
بھول جانے کی ادائیں بھی سکھا دے مجھ کو
میں محبت کا پجاری ہوں وفا کا شیدا
بے وفا کیسے بنوں یہ تو بتا دے مجھ کو
میرے معصوم سے قاتل ترا بسمل آخر
چھوڑ دے کوچۂ قاتل تو کہاں جائے گا
جس جگہ ہوں گی ترے حسن کی شمعیں روشن
تیرا پروانہ وہیں آئے گا جل جائے گا
بے وفا کیسے بنوں