موسیٰ کی تلاش
اپنے چہروں پہ صحرا کے رقصاں بگولے لیے
اپنے لب کو سیے
اپنی آنکھوں میں محرومیوں کو سمیٹے ہوئے
اپنی پلکوں کی سہمی ہوئی چلمنوں میں
چیختی تشنگی کو چھپائے
زندگی تیری یہ زندہ لاشیں
رینگتی پھر رہی ہیں
در بہ در کوچہ کوچہ گلی در گلی
از افق تا افق
کوئی عیسیٰ نفس
کوئی شنکر صفت
ان کے چہروں پہ رقصاں بگولے
ان کی آنکھوں کی محرومیاں
ان کی پلکوں کی وہ چیختی تشنگی
چھین لے
توڑ دے ان کے لب کا سکوت گراں
آج بار دگر
وقت کو جستجو ہے
ایسے انسان کی
جس کی بس ایک ضرب عصا سے
چشمۂ آب حیواں ابل جائے
جاں بہ لب زندگی کے بدن سے
تشنگی درد بن کر نکل جائے