خموشی گفتگو ہے بے زبانی ہے زباں اس کی
خموشی گفتگو ہے بے زبانی ہے زباں اس کی
میں سمجھا تھا کہ مجھ سے مختلف ہے داستاں اس کی
مرے ہر سمت پھیلی چاندنی ہے یا حصار اس کا
مرا احساس ہے یا رقص میں پرچھائیاں اس کی
میں خود کو جیسے اپنے پاس ہی محسوس کرتا ہوں
مرے الفاظ میں رس گھولتی ہیں شوخیاں اس کی
کہاں میری طرح سب کو ملا زخموں کا پیراہن
یوں کہنے کو تو سب پر ہے نگاہ مہرباں اس کی
شکست شیشۂ دل کی صدا پہروں سنائی دے
اگر اک بار اٹھ جائے نگاہ مہرباں اس کی
سویرا ہو گیا شاید رہائی مل گئی اس کو
در زنداں پہ کوئی رکھ گیا ہے بیڑیاں اس کی
ہرے موسم میں منظر بے لباسی کا کہاں ممکن
مگر طرفہ ہنر یہ جانتی ہیں آندھیاں اس کی