خوابوں کی انجمن میں نہ ویرانیوں میں تھا

خوابوں کی انجمن میں نہ ویرانیوں میں تھا
دل کا سرور شوق کی نادانیوں میں تھا


تہذیب نو شعور کا آئینہ بن گئی
لیکن وہ انبساط جو نادانیوں میں تھا


ہونٹھوں پہ پیاس چہروں پہ حرماں کی گرد تھی
کیا اہتمام بے سر و سامانیوں میں تھا


نفرت کی آگ ذہن کا آسیب بن گئی
شعلوں کا رقص اب کے حدیٰ خوانیوں میں تھا


چہرے قمرؔ چلے گئے جسموں سے روٹھ کر
میں آئنہ لیے ہوئے حیرانیوں میں تھا