کنج دل میں تری چاہت کے سوا کچھ بھی نہیں
کنج دل میں تری چاہت کے سوا کچھ بھی نہیں
آئنہ خانہ میں حیرت کے سوا کچھ بھی نہیں
ہر قدم پر منتظر مجبوریاں محرومیاں
زندگی خوش نام تہمت کے سوا کچھ بھی نہیں
پوچھتے کیا ہو مآل آمد فصل بہار
سارا گلشن نقش عبرت کے سوا کچھ بھی نہیں
گردش ایام تو ناحق پشیماں ہو گئی
مسکرانا میری عادت کے سوا کچھ بھی نہیں
اے قمرؔ اب جا رہا ہوں پر سکوں اک گاؤں میں
اب تو میرے پاس فرصت کے سوا کچھ بھی نہیں