Imtiyaz Ahmad Qamar

امتیاز احمد قمر

امتیاز احمد قمر کی نظم

    بے وفا کیسے بنوں

    خلوت غم کے دریچوں پہ یہ دستک کیسی اے مری فخر وفا رشک چمن جان حیا دامن چشم میں ہے نامۂ الفت جب سے دل کا ہر سویا ہوا زخم مرا جاگ اٹھا جاں سپاری کی ادا مجھ کو سکھانے والے آج یہ حکم کہ میں پیار کا چرچا نہ کروں گھٹ کے رہ جاؤں پہ رخسار تری یادوں کے اپنی تخیل کی آنکھوں سے بھی چوما نہ ...

    مزید پڑھیے

    سپنے

    آخر کب تک تم سپنوں کے شیش محل میں رنگ برنگی قوس قزح سی یادوں کی ایک چادر تانے سوئے رہو گے کھوئے رہو گے ایک ذرا یہ بھی تو سوچو کل کوئی شریر سا بچہ سپنوں کے اس شیش محل پر کھیل ہی کھیل میں بس اک پتھر دے مارے تو پھر کیا ہوگا آنکھیں کھولو سپنے تو آخر سپنے ہیں ان کا کیا ہے ماضی کے بیتے ...

    مزید پڑھیے

    ست رنگی قوس قزح کے نام

    میں کہ اک جنت ارضی سے چلا آیا ہوں بیتی یادوں کی مہک دل میں چھپا لایا ہوں جس جگہ کوثر و تسنیم کی نہریں تھیں رواں جس جگہ اپنی تمناؤں کی دنیا تھی جواں نور ایمن تھا ثریا کی نگاہوں میں جہاں شاخ نسرین تھی فرحین کی بانہوں میں جہاں جس جگہ فرحت و نزہت کی ہوا چلتی تھی بن کے تزئین در و بام صبا ...

    مزید پڑھیے

    موسیٰ کی تلاش

    اپنے چہروں پہ صحرا کے رقصاں بگولے لیے اپنے لب کو سیے اپنی آنکھوں میں محرومیوں کو سمیٹے ہوئے اپنی پلکوں کی سہمی ہوئی چلمنوں میں چیختی تشنگی کو چھپائے زندگی تیری یہ زندہ لاشیں رینگتی پھر رہی ہیں در بہ در کوچہ کوچہ گلی در گلی از افق تا افق کوئی عیسیٰ نفس کوئی شنکر صفت ان کے چہروں پہ ...

    مزید پڑھیے