میں اپنے لہجے میں بولتا ہوں
میں اپنے ہاتھوں سے سوچتا ہوں اور اپنے پوروں سے انگلیوں کے نہ کھلنے والی گرہوں کو ذہنوں کی کھولتا ہوں برسنے والی سخن کی بارش سے سچے لفظوں کے موتیوں کو میں رولتا ہوں میں اپنے لہجے میں بولتا ہوں
میں اپنے ہاتھوں سے سوچتا ہوں اور اپنے پوروں سے انگلیوں کے نہ کھلنے والی گرہوں کو ذہنوں کی کھولتا ہوں برسنے والی سخن کی بارش سے سچے لفظوں کے موتیوں کو میں رولتا ہوں میں اپنے لہجے میں بولتا ہوں
یہ آنکھیں اک ایسے شخص کا عطیہ ہیں جس نے اس دوزخ میں رہ کر اک جنت آباد کری تھی نفس کو زنجیریں پہنا کر روح اپنی آزاد رکھی تھی
اپنے اپنے کاموں سے وقت جو بھی بچتا تھا ساتھ ہم بتاتے تھے جو سمے گزرتے تھے ان کی جگ کہانی بھی ایک دوسرے کو ہم شوق سے سناتے تھے لوٹ کر میں آفس سے جس گھڑی تھکا ہارا اپنے گھر میں آتا تھا سب تکان دن بھر کی اپنے در کی چوکھٹ سے دور چھوڑ آتا تھا یاد ہے مجھے اب تک دن وہ تلخ ماضی کا باس اپنے ...
آئنے کے چہرے سے جھانکتی ہوئی آنکھیں سوچتی ہوئی آنکھیں کھل کے کچھ نہیں کہتیں چپ بھی یہ نہیں رہتیں روبرو تم آئینہ آج اپنے رکھ لینا جو بھی دل میں ہے پنہاں صاف صاف کہہ دینا کل کو عین ممکن ہے موت اپنی مر جائے آئنہ چٹخ جائے
سفر میں پیش کوئی حادثہ بھی ممکن ہے ذرا سے دیر میں آہ و بکا بھی ممکن ہے مرا وجود کبھی بے اماں نہ ہو جائے یہ جسم مر کے کہیں بے نشاں نہ ہو جائے مرا پتہ نہ چلے کچھ مری خبر نہ ملے گزر ہوا تھا جہاں سے وہ رہ گزر نہ ملے شکار ہو گیا جب مرگ ناگہانی کا خیال آئے گا لوگوں کو تب نشانی کا نقاب ...
کھٹ بڑھئی کی دستک پر تناور شجر نے کندھے جھٹک کر اپنی بے نیازی کا اظہار کیا ہوا کا تیز جھونکا گھڑی بھر کے لیے پتوں سے الجھا پھولی ہوئی سانس سے کچھ کہنا چاہا مگر الفاظ نے ساتھ نہ دیا شجر نے بڑی بے اعتنائی سے اس کی طرف ایک نظر دیکھا مگر جھونکا اتنی دیر میں دور جا چکا تھا ابھی اسے اور ...
چاندنی راتوں کے رسیا اس رات بھی اس کی راہیں دیکھ رہے تھے مدہوشی میں ناچ رہے تھے وقت کی مدھم ہوتی لو سے ٹھنڈے ہوتے جسموں کو اب سینک رہے تھے چاند اس رات بھی کافی دیر سے نکلا تھا پچھلی کچھ راتوں سے اکثر چاند کو دیر ہو جاتی تھی چاند کا رستہ تکتے تکتے چاند سے چہرے والی بچی روتے روتے سو ...
کبھی تم نے کسی چھوٹے سے بچے کو سسکتے نیند میں بھیگی ہوئی آنکھوں سے دیکھا ہے کبھی پوچھا ہے خود سے بھی سبب اس کا کبھی سوچا ہے تم نے کس لئے معصوم روتا ہے کیوں آنکھیں بند اپنی جان کھوتا ہے کھبی تم نے بھی اپنے بچپنے میں خواب بوئے تھے کبھی سوتے میں روئے تھے تمہیں بھی یاد کب ہوگا سر ...
جب سے ابا کے چہرے کو لکوا مار گیا تھا اور دادا کو دل کا دورہ زیادہ تر وہ گھر کے اندر رہتے آپس ہی میں باتیں کرتے وقت بتاتے باہر کے سب کام بڑے بھیا کی ذمہ داری باغ بغیچے کورٹ کچیری اور پٹواری فصل اگاتے ہاری اپنے گھر کے مردانے کا حال برا تھا ہر کمرے میں کاٹھ کباڑ مکڑی جالے کس کو فرصت ...
لوٹ کر جب نہ گھر گئی ہوگی اک قیامت گزر گئی ہوگی رات پر ہول بھیڑیوں کا غول وہ اکیلی تھی ڈر گئی ہوگی کوئی آدم نہ کوئی آدم زاد دور تک جب نظر گئی ہوگی غیر کا ہاتھ جب بڑھا ہوگا جیتے جی وہ تو مر گئی ہوگی اپنے تن کو جلا کے غیرت سے زخم سب دل کے بھر گئی ہوگی بنت حوا جو مانگتی ہے کفن سر سے ...