پچھلے بیس برسوں میں

اپنے اپنے کاموں سے
وقت جو بھی بچتا تھا
ساتھ ہم بتاتے تھے
جو سمے گزرتے تھے
ان کی جگ کہانی بھی
ایک دوسرے کو ہم
شوق سے سناتے تھے
لوٹ کر میں آفس سے
جس گھڑی تھکا ہارا
اپنے گھر میں آتا تھا
سب تکان دن بھر کی
اپنے در کی چوکھٹ سے
دور چھوڑ آتا تھا


یاد ہے مجھے اب تک
دن وہ تلخ ماضی کا
باس اپنے گھر سے جب
پٹ پٹا کے آئے تھے
تازہ تازہ چہرے پر
ہر طرف کھرونچے تھیں
کٹ کھنی سی بلی نے
شاید اپنے پنجوں سے
دونوں گال نوچے تھے
نوکری تو کرنا تھی
چاکری بھی کرنا تھی
سو جناب والا نے
روز کی طرح پہلے
حال باس کا اپنے
فون پر ہی پوچھا تھا
اور پھر ریسیور سے
فون کے کریڈل کو
بے بسی سے پیٹا تھا
آنجناب نے اس دن
جس قدر بھی غصہ تھا
مجھ پہ ہی اتارا تھا
میرا جیسا بد قسمت
جب بھی سامنے آیا
ڈانٹ کر بھگایا تھا


میں بھی کم نہ تھا ان سے
اپنی ڈیسک پر جا کر
فائلوں کو دے پٹخا
اور اپنے جیسوں پر
بے قصور ہی برسا


یہ کتھا مری بیوی
سن کے کھلکھلا اٹھی
اور اپنی دن بیتی
خود ہی پھر شروع کر دی
آج میری ماسی نے
پھر گلاس شیشے کا
چکنا چور کر ڈالا
صرف یہ نہیں بلکہ
کپڑے دھونے والی نے
سلک کا وہ دوپٹہ
کل ہی جو خریدا تھا
بور بور کر ڈالا
میں نے بھی لگی لپٹی
کچھ بچا نہیں رکھی
جس قدر تھیں صلواتیں
بے نقط سنا ڈالیں
اپنی اپنی دن بیتی
دونوں جب بھی کہہ چکتے
قہقہے لگاتے تھے
یوں ہم اپنی غربت کی
خود ہنسی اڑاتے تھے
وہ سکوں جو غربت کے
ان دنوں میں حاصل تھا
وہ سکوں نہیں ملتا
وہ جو گھر کبھی جس میں
دل ہمارا لگتا تھا
اس میں دل نہیں لگتا


روز و شب کی گردش نے
سب ہی کچھ بدل ڈالا
اور جو نہیں بدلا
پچھلے بیس برسوں میں
اک وہی مرا آفس
لوگ اب بھی تقریباً
ساتھ میں وہی سب ہیں
فرق ہے تو بس اتنا
باس کی میں کرسی پر
باس بن کے بیٹھا ہوں
میرے اپنے چہرے پر
ہر طرف کھرونچے ہیں
صاف ایسا لگتا ہے
کٹ کھنی سی بلی نے
جیسے گال نوچے ہیں