فاختہ کا رنگ زرد تھا
کھٹ بڑھئی کی دستک پر
تناور شجر نے
کندھے جھٹک کر
اپنی بے نیازی کا اظہار کیا
ہوا کا تیز جھونکا
گھڑی بھر کے لیے پتوں سے الجھا
پھولی ہوئی سانس سے کچھ کہنا چاہا
مگر الفاظ نے ساتھ نہ دیا
شجر نے بڑی بے اعتنائی سے
اس کی طرف ایک نظر دیکھا
مگر جھونکا اتنی دیر میں دور جا چکا تھا
ابھی اسے اور بھی تو پیغام پہنچانے تھے
یک بارگی شجر کھڑے قد سے ڈگمگایا
حالانکہ فضا بالکل ساکت تھی
پتے انجانے خوف سے
ہولے ہولے کانپ رہے تھے
کھٹ بڑھئی کی دستک تیز سے تیز تر ہوتی جا رہی تھی
ہوا کا جھونکا
واپسی میں پل کے پل ٹھہرا
مگر بہت دیر ہو چکی تھی
تناور درخت ایک بار بڑی زور سے کانپا
اور ایک طرف جھکتا چلا گیا
اس کی اپنی غفلت نے
دیمک کی طرح
اس کے وجود کو کھوکھلا کر دیا تھا
کھٹ بڑھئی کی دستک بھی دم توڑ چکی تھی
اور فاختہ
گرے ہوئے شجر کے اوپر
مسلسل چکر کاٹ رہی تھی