دیر سویر تو ویسے بھی ہو جاتی ہے
چاندنی راتوں کے رسیا
اس رات بھی اس کی راہیں
دیکھ رہے تھے
مدہوشی میں ناچ رہے تھے
وقت کی مدھم ہوتی لو سے
ٹھنڈے ہوتے جسموں کو اب
سینک رہے تھے
چاند اس رات بھی کافی دیر سے نکلا تھا
پچھلی کچھ راتوں سے اکثر
چاند کو دیر ہو جاتی تھی
چاند کا رستہ تکتے تکتے
چاند سے چہرے والی بچی
روتے روتے سو جاتی تھی
چاند کو بھی احساس تھا اس کا
دیر سویر تو ویسے بھی ہو جاتی ہے
کوئی سبب تو ہوتا ہوگا
لیکن اپنی دھن میں رقصاں
لوگوں نے کب سوچا ہوگا
اور کسی نے اس بارے میں سوچا ہوگا
تو اس نے اس پاگل پن پر
ہنس کر
کاک اڑایا ہوگا
تازہ پیگ اٹھایا ہوگا
دیر سویر تو ویسے بھی ہو جاتی ہے
لیکن چاند کو
اور کہیں سے بھی تو ہو کر آنا تھا
کچھ راتوں سے
سات سمندر پار جزیرے کے ٹیلے پر بیٹھی
تنہا اک معصوم سی لڑکی
دیر تلک بس اس کو تکتی رہتی ہے
تکتے تکتے رو دیتی ہے
جانے کیسا روگ لگا بیٹھی ہے
چاند اب روز ہی اس بستی سے گزرا کرتا
اس کو تکتا رہتا
لیکن آخر کب تک
اس کو اور بھی آگے جانا ہوتا تھا
اس کا رستہ دیکھنے والوں میں
وہ بچی بھی تو شامل تھی
جو روتے روتے سو جاتی تھی
اور وہ سب جو چاندنی راتوں کے رسیا تھے
ان کے چہرے بھی جانے پہچانے تھے
چاندنی راتوں کے رسیا
اس رات بھی
اس کا رستہ دیکھ رہے تھے
لیکن چاند کو اس لڑکی کی بستی بھی تو جانا تھا
وہ لڑکی جو چاند کے اندر اپنے ہی محبوب کا چہرا تکتی ہے
چاند کو لیکن کچھ راتوں سے وہ لڑکی اب اپنی اپنی لگتی ہے
دیر سویر تو ویسے بھی ہو جاتی ہے