Firoz Natiq Khusro

فیروز ناطق خسرو

فیروز ناطق خسرو کی نظم

    جان پیاری ہے

    یکا یک اڑتے اڑتے اجنبی معصوم صورت اک پرندہ بالکنی میں رکھے پنجرے کے پاس آ کر مری مینا سے سرگوشی کے لہجے میں لگا کہنے سنا تم نے بدیسی دوستوں نے تم کو یہ پیغام بھیجا ہے ہمیں تم سے محبت ہے محبت ہے ہمیں سر سبز گہری وادیوں سے کہساروں آبشاروں سے محبت ہے ہمیں ان ہم صفیروں سے اخوت کے ...

    مزید پڑھیے

    بہانہ ڈھونڈ لیتے ہیں

    سنو کچھ دیر ہم اک دوسرے کا غم کرنے وہ سنتے ہیں جو کانوں پر پڑے پردے ہمیں سننے نہیں دیتے جو دل میں ہے ہمیں کہنے نہیں دیتے بظاہر ہم سبھی کچھ سن بھی لیتے ہیں کھلی آنکھوں سے اپنی دیکھ لیتے ہیں چلو پھر اب ہمیشہ کے لیے ہم ایسا کرتے ہیں غلط فہمی خود سے دور کرنے ساتھ مل کر بیٹھنے کا اک ...

    مزید پڑھیے

    چلو بازار چلتے ہیں

    کسی کی جیب سے نقدی کسی کے کان کی بالی کسی کی چوڑیاں ہاتھوں سے مہنگا کوئی موبائل جھلک ٹی ٹی کی دکھلا کر جو مالا ٹوٹ کر بکھرے تو موتی بین لیتے تھے غریبوں کی بھی کل پونجی ابھی کل تک یہاں ہم چھین لیتے تھے مگر اب لوگ بھی اپنے بہت ہشیار بنتے ہیں شکستہ ہی سہی پھر بھی ہماری راہ کی دیوار ...

    مزید پڑھیے

    لوح محفوظ

    محلے کا جو رکھوالا تھا اس نے عادتاً لاٹھی بجا کر بلغمی آواز سے نعرہ لگایا جاگتے رہنا مرے اخبار والے نے ادھر معمول سے ہٹ کر مجھے آواز دے کر روز کا اخبار ڈالا یہی کچھ دودھ والے نے کیا اور پھیری والے نے میں سو کر صبح جب اٹھا تو ان معصوم لوگوں نے اشاروں اور کنایوں سے مجھے چاہا بتانا ...

    مزید پڑھیے

    اجنبی شہر کے

    اجنبی ہوں کہ ہوں اجنبی شہر کے اجنبی بام و در اجنبی راستے ایک ہی سے لگے ایک جیسے لگے میں جہاں بھی گیا جس طرف بھی گیا رقص کرتی چلیں ساتھ پرچھائیاں اجنبی شہر کے اجنبی بام و در کیا شجر کیا حجر ایک ہی سے لگے ایک جیسے لگے ایک ہی جسم کی بڑھ کے لائے خبر

    مزید پڑھیے

    دریچے کھولے رکھتا ہوں

    مری سوچیں کبھی مجھ کو بہت رنجور کرتی ہیں مجھی سے مجھ کو کوسوں دور کرتی ہیں میں اکثر سوچتا ہوں پھر کسی سے بات کر کے وقت کا لمحہ کوئی زنجیر کرنا ہے دل سادہ ورق پر نام اک تحریر کرنا ہے مگر میں اپنی سوچوں پر عمل پھر بھی نہیں کرتا جو میرے چاہنے والے ہیں مجھ سے خوش نہیں رہتے میں یہ بھی ...

    مزید پڑھیے

    یہ رات ہوگی طویل کتنی

    یہ رات ہوگی طویل کتنی بلند ہوگی فصیل کتنی یہ خوف و دہشت کا دور دورہ رہے گا کب تک گلی گلی کوچہ کوچہ پہرہ رہے گا کب تک یہ آگ جنگل کی آگ کب تک فلک سے برسے گی راکھ کب تک ستارے ٹوٹیں گے اور کب تک یوں آسماں سے پرند روٹھیں گے آشیاں سے یہ پھول پتے ہوائیں شبنم کریں گے کس کس کا اور ماتم سیاہ ...

    مزید پڑھیے

    گھر کا واحد مرد

    مری باجی بہت دیر سے مجھے آوازیں دے رہی تھیں غالباً بازار جانا تھا جب سے ابا کا انتقال ہوا ہے وہ ہر چھوٹے بڑے کام کے لیے جب بھی کہیں جاتیں مجھے ساتھ لے جاتی تھیں کبھی کبھی تو مجھے بہت برا لگتا آج بھی میں اپنا کھیل چھوڑ کر اٹھا باجی نے سر پر چادر ڈالی امی سے پیسے لیے اور میرا ہاتھ ...

    مزید پڑھیے

    محبت کی بھی کوئی عمر ہوتی ہے

    محبت کی حرارت دل کو پگھلائے بنا رہ ہی نہیں سکتی کسی کی گھٹتی بڑھتی عمر کا اس سے تعلق کیا محبت کا نہ کوئی وقت ہوتا ہے نہ اس کی عمر ہوتی ہے یہ جب چاہے جسے چاہے جکڑ لیتی اپنے سحر میں ایک دم محبت کی بھی کوئی عمر ہوتی نہ جانے کس نے تم سے کہہ دیا کس شے کے نشے میں میں اس سے جب ملا مجھ کو ...

    مزید پڑھیے

    وہ حمد رب جلیل

    ہمیں تعلیم دیتا ہے اشاروں سے کنایوں سے اچھوتے استعاروں سے کبھی تشبیہ کے روشن ستاروں سے ہمارے ذہن و دل کی ہر تہ نا صاف کو آلودگی سے پاک کرتا ہے کبھی لفظوں کے تن پر سے قبائے پر تکلف چاک کرتا ہے ہر اک باطل رویے کو جلا کر راکھ کرتا ہے

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 3