نقاب جتنے ہیں

سفر میں پیش کوئی حادثہ بھی ممکن ہے
ذرا سے دیر میں آہ و بکا بھی ممکن ہے


مرا وجود کبھی بے اماں نہ ہو جائے
یہ جسم مر کے کہیں بے نشاں نہ ہو جائے


مرا پتہ نہ چلے کچھ مری خبر نہ ملے
گزر ہوا تھا جہاں سے وہ رہ گزر نہ ملے


شکار ہو گیا جب مرگ ناگہانی کا
خیال آئے گا لوگوں کو تب نشانی کا


نقاب جتنے ہیں میرے وہ نوچ ڈالیں گے
پرت اتاریں گے چہرہ کھرونچ ڈالیں گے


یہی سبب ہے کہ جب بھی میں گھر سے جاتا ہوں
کچھ اہتمام اسی ڈر سے کر کے جاتا ہوں


نہ کوئی نقش نہ تحریر اپنی رکھتا ہوں
میں اپنی جیب میں تصویر اپنی رکھتا ہوں