فرزاد علی زیرک کی غزل

    خدا سے عشق ہو اچھی دعا سلام نہ ہو

    خدا سے عشق ہو اچھی دعا سلام نہ ہو کہ جیسے دشت کو بادل سے کوئی کام نہ ہو میں دوستی میں شریعت کا پاس رکھتا ہوں اگر یہ زخم لگانا مجھے حرام نہ ہو کھٹک رہا ہو کسی شخص کا دلاسا مجھے اور اس پہ ظلم کہ پانی کا اہتمام نہ ہو میں آسمان کی دعوت قبول کر لوں گا مگر زمیں کے سوا کوئی تام جھام نہ ...

    مزید پڑھیے

    چھانٹی کے چار لوگ ہیں جن سے کلام ہے

    چھانٹی کے چار لوگ ہیں جن سے کلام ہے باقی حسد زدوں کو نمستے سلام ہے جا بزدلا ہمیں نہ دکھا دوستوں کے زخم ہم وہ فقیر ہیں جنہیں غیبت حرام ہے آنسو بھی ایک دشت کی بیعت کو آئے ہیں وہ دشت جس کے صبر کا دریا غلام ہے القصہ مختصر کہ مجھے نیند آ گئی مزدور کا وصال ابھی ناتمام ہے اچھے نسب کے ...

    مزید پڑھیے

    یہ ہم جو آئنے چمکا رہے ہیں

    یہ ہم جو آئنے چمکا رہے ہیں کسی کھڑکی پہ کھلنے جا رہے ہیں ہماری نیند گھٹتی جا رہی ہے تمہارے خواب کس کو آ رہے ہیں تماشا ختم ہونے جا رہا ہے ہمارے سانپ ہم کو کھا رہے ہیں ہمارے پاؤں کی رسی سے پوچھو کہ ہم کیوں گردنیں کٹوا رہے ہیں پرانی دشمنی تازہ ہوئی ہے جو دریا دشت سے گھبرا رہے ...

    مزید پڑھیے

    شوق بجھتے نہیں نوابی کے

    شوق بجھتے نہیں نوابی کے لاکھ طعنے سنے رکابی کے کیا حفاظت ہو خالی کمرے کی کون نخرے اٹھائے چابی کے سانس ہموار ہونے والی تھی رنگ اڑنے لگے سرابی کے اشک بھر دیجیے پیالے میں ہونٹ تھک جائیں گے شرابی کے عشق میں آنکھ ہو گئی آباد فائدے دیکھ اس خرابی کے

    مزید پڑھیے

    پاؤں زنجیر پرکھنے میں ابھی کچے ہیں

    پاؤں زنجیر پرکھنے میں ابھی کچے ہیں یا ترا حکم سمجھنے میں ابھی کچے ہیں پیڑ بے موسمی باتوں کا برا مان گیا ورنہ کچھ پھل ہیں جو چکھنے میں ابھی کچے ہیں ہم سے کیا ہوگی تعلق میں برائی صاحب ہم تو بہتان ہی گھڑنے میں ابھی کچے ہیں اتنے لوگوں میں کوئی ڈھنگ کا وحشی نہ ملا ایک دو ہیں بھی تو ...

    مزید پڑھیے

    جب آنسوؤں کے بھروسے کا ذکر چلتا ہے

    جب آنسوؤں کے بھروسے کا ذکر چلتا ہے بچھڑتے وقت بھی تکیے کا ذکر چلتا ہے گلی میں لوگ ہیں اور ان میں ایک میں بھی ہوں اور اک مکان کے تالے کا ذکر چلتا ہے کسی بھی بات کو سنجیدگی سے کیا لینا ابھی تو آپ کے نخرے کا ذکر چلتا ہے ہنسی کی بات چلی اور خواب ٹوٹ گیا لہو کے ذکر سے لاشے کا ذکر چلتا ...

    مزید پڑھیے

    تمام رات سڑک پر ہمیں بٹھایا گیا

    تمام رات سڑک پر ہمیں بٹھایا گیا جب اہتمام نہیں تھا تو کیوں بلایا گیا بلا رہی تھی کوئی چھاؤں ایسی عجلت میں کہ اپنا سایہ بھی ہم سے نہیں اٹھایا گیا تمہیں تو آگ دکھائی گئی سہولت سے ہمیں چراغ سمجھ کر دھواں دکھایا گیا بہت دنوں میں اترتا ہے زنگ اندر کا بہت دنوں مری آنکھوں کو آزمایا ...

    مزید پڑھیے

    جوکر نہیں جو ہنسنے ہنسانے کا کام ہے

    جوکر نہیں جو ہنسنے ہنسانے کا کام ہے وحشی کو کھارا دشت اگانے کا کام ہے پہلے میں کوئلے کی دکاں پر تھا صاب جی اب سے خرد چراغ بنانے کا کام ہے تجھ سے نظر بچا کے ہنسیں گے تمام لوگ وہ یوں کہ تیرا دل بھی دکھانے کا کام ہے میں بادشاہ بن تو گیا ہوں مگر مرا فریادیوں کے پاؤں دبانے کا کام ...

    مزید پڑھیے

    کن اشاروں سے مدعا پوچھے

    کن اشاروں سے مدعا پوچھے گونگا کوا گھڑے سے کیا پوچھے کچھ کھلونے خریدنے تھے مجھے جا فقیرا تجھے خدا پوچھے اب میں دیوار ہونے والا ہوں اب کوئی مجھ سے بے بہا پوچھے ایک چھتری تو کھل نہیں پائی کون بارش کی ابتلا پوچھے دو برے لوگ پکا یارانہ آئنہ آئنے سے کیا پوچھے

    مزید پڑھیے

    ترے حسد کے مقابل کوئی صفائی نہیں

    ترے حسد کے مقابل کوئی صفائی نہیں تو چھوٹا شخص ہے تجھ سے مری لڑائی نہیں وہی لباس وہی ہاؤ ہو وہی میں ہوں تمہارے بعد کسی نے ہنسی اڑائی نہیں چراغ بجھنے سے پہلے سحر بناتے ہیں یہ اپنا دین ہے صاحب سنی سنائی نہیں غلاف کھول اگر آگ دیکھنی ہے تجھے یہ ایک آگ جو میں نے بھی آزمائی ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2