خدا سے عشق ہو اچھی دعا سلام نہ ہو
خدا سے عشق ہو اچھی دعا سلام نہ ہو
کہ جیسے دشت کو بادل سے کوئی کام نہ ہو
میں دوستی میں شریعت کا پاس رکھتا ہوں
اگر یہ زخم لگانا مجھے حرام نہ ہو
کھٹک رہا ہو کسی شخص کا دلاسا مجھے
اور اس پہ ظلم کہ پانی کا اہتمام نہ ہو
میں آسمان کی دعوت قبول کر لوں گا
مگر زمیں کے سوا کوئی تام جھام نہ ہو
دعا تو وہ ہے جو درکار ہو ہمیں خود بھی
خدا کرے تو کسی کا کبھی غلام نہ ہو
منافقت میں کوئی مصلحت نہیں ہوتی
تو چاہتا ہے کہ تلوار بے نیام نہ ہو
مشاعرے میں کوئی مجھ سا سر پھرا بھی دکھا
کہ جس کے پاس کلیشے سے بھرا کلام نہ ہو