چھانٹی کے چار لوگ ہیں جن سے کلام ہے

چھانٹی کے چار لوگ ہیں جن سے کلام ہے
باقی حسد زدوں کو نمستے سلام ہے


جا بزدلا ہمیں نہ دکھا دوستوں کے زخم
ہم وہ فقیر ہیں جنہیں غیبت حرام ہے


آنسو بھی ایک دشت کی بیعت کو آئے ہیں
وہ دشت جس کے صبر کا دریا غلام ہے


القصہ مختصر کہ مجھے نیند آ گئی
مزدور کا وصال ابھی ناتمام ہے


اچھے نسب کے دشمنوں کی خیر مانگیے
کانٹے نہ ہوں تو پھول کا بھی کیا مقام ہے


میں بھی خدا سے تیری شکایت لگاؤں گا
اور یہ غریب آدمی کا انتقام ہے


مٹی جنے چراغ حسد میں ہی جل مرے
سورج کو آج رات بھی جگنو سے کام ہے