یہ ہم جو آئنے چمکا رہے ہیں

یہ ہم جو آئنے چمکا رہے ہیں
کسی کھڑکی پہ کھلنے جا رہے ہیں


ہماری نیند گھٹتی جا رہی ہے
تمہارے خواب کس کو آ رہے ہیں


تماشا ختم ہونے جا رہا ہے
ہمارے سانپ ہم کو کھا رہے ہیں


ہمارے پاؤں کی رسی سے پوچھو
کہ ہم کیوں گردنیں کٹوا رہے ہیں


پرانی دشمنی تازہ ہوئی ہے
جو دریا دشت سے گھبرا رہے ہیں


وہی اک مسئلہ جو پہلے بھی تھا
اندھیرے سے دیے کترا رہے ہیں