تمام رات سڑک پر ہمیں بٹھایا گیا
تمام رات سڑک پر ہمیں بٹھایا گیا
جب اہتمام نہیں تھا تو کیوں بلایا گیا
بلا رہی تھی کوئی چھاؤں ایسی عجلت میں
کہ اپنا سایہ بھی ہم سے نہیں اٹھایا گیا
تمہیں تو آگ دکھائی گئی سہولت سے
ہمیں چراغ سمجھ کر دھواں دکھایا گیا
بہت دنوں میں اترتا ہے زنگ اندر کا
بہت دنوں مری آنکھوں کو آزمایا گیا
ندی نے آخری کنکر بھی کر دیا مایوس
بس ایک سانس بچا تھا سو کھینچ لایا گیا