ترے حسد کے مقابل کوئی صفائی نہیں

ترے حسد کے مقابل کوئی صفائی نہیں
تو چھوٹا شخص ہے تجھ سے مری لڑائی نہیں


وہی لباس وہی ہاؤ ہو وہی میں ہوں
تمہارے بعد کسی نے ہنسی اڑائی نہیں


چراغ بجھنے سے پہلے سحر بناتے ہیں
یہ اپنا دین ہے صاحب سنی سنائی نہیں


غلاف کھول اگر آگ دیکھنی ہے تجھے
یہ ایک آگ جو میں نے بھی آزمائی نہیں


پلٹنے دیتا نہیں ہوں میں اس کی آوازیں
یہ مری خستہ تنی ہے گریز پائی نہیں