Farooq Jaiasi

فاروق جائسی

فاروق جائسی کی غزل

    پہلی سی مجھ پہ چشم عنایت نہیں رہی

    پہلی سی مجھ پہ چشم عنایت نہیں رہی شاید اب اس کو میری ضرورت نہیں رہی بے وجہ کاٹ دیتا ہے میری ہر ایک بات اس کی نظر میں اب مری قیمت نہیں رہی مجھ سے گریز کرنے لگا جب سے میرا یار مجھ کو بھی اس سے ملنے کی عجلت نہیں رہی وہ بے وفا نہیں یہ مجھے ہے یقیں مگر اب اعتبار کرنے کی ہمت نہیں ...

    مزید پڑھیے

    کیا خطا ہوئی ہم سے کچھ پتا نہیں ملتا

    کیا خطا ہوئی ہم سے کچھ پتا نہیں ملتا ہم دعا تو کرتے ہیں مدعا نہیں ملتا اس سے لو لگاؤ تو اپنا سر جھکاؤ تو پھر ذرا بتاؤ تو تم کو کیا نہیں ملتا چل پڑیں تو منزل خود پاس آنے لگتی ہے جب قدم نہیں اٹھتے راستہ نہیں ملتا انگلیاں اٹھاتے ہیں جو مری وفاؤں پر کیا انہیں حقیقت کا آئنہ نہیں ...

    مزید پڑھیے

    مجھ کو نہ تھا معلوم تو ہے اس میں عجب کیا

    مجھ کو نہ تھا معلوم تو ہے اس میں عجب کیا یہ کون بتا سکتا ہے ہو جائے گا کب کیا اس کا تو مزہ تب ہے کہ جب دائمی ہو جائے کچھ دن کے لئے ہیں بھی تو ہیں عیش و طرب کیا سایہ ہے کہیں نور مرا ذوق فراواں سورج کی تپش کیا ہے یہ تاریکئ شب کیا خود اٹھ کے چلی آتی ہے منزل مری جانب ایسے میں ہو مجھ کو ...

    مزید پڑھیے

    کسی شے کو یہاں ثبات نہیں

    کسی شے کو یہاں ثبات نہیں کون سا دن ہے جس کی رات نہیں زندہ ذوق نظر نہیں ورنہ سونی سونی یہ کائنات نہیں ہے کسی کا تو ہاتھ پردے میں بے محرک یہ حادثات نہیں رفتہ رفتہ وہ کھل گئے مجھ سے درمیاں اب تکلفات نہیں اب جو اپنوں کو میں کہوں دشمن یہ برا ماننے کی بات نہیں ایک ہی سمت ہے مرا ...

    مزید پڑھیے

    میں کر لوں سجدہ یہ جذب اثر ملے نہ ملے

    میں کر لوں سجدہ یہ جذب اثر ملے نہ ملے اثر ملے تو ترا سنگ در ملے نہ ملے ہمارے ٹوٹے دلوں کو بھی جوڑئیے صاحب پھر آپ سا کوئی آئینہ گر ملے نہ ملے سفر ہی باندھ لیا پاؤں میں تو ڈرنا کیا سلگتی دھوپ میں کوئی شجر ملے نہ ملے خدا کرے کہ مری اس کی ایک ہو منزل پھر اس کے جیسا کوئی ہم سفر ملے نہ ...

    مزید پڑھیے

    اس حقیقت کو سب نے مانا ہے

    اس حقیقت کو سب نے مانا ہے جو بھی آیا ہے اس کو جانا ہے اس کے منہ تک پہنچ ہی جانا ہے جس کی قسمت کا آب و دانہ ہے موت آئی تھی لے گئی اس کو حادثہ تو فقط بہانہ ہے ان کے قدموں میں جان دے دینا موت کو زندگی بنانا ہے بام و در کو سجا لیا جائے میرے گھر آج ان کو آنا ہے میرے غم سے ہو ان کو کیوں ...

    مزید پڑھیے

    ہم نے سب کچھ لٹا کے دیکھ لیا

    ہم نے سب کچھ لٹا کے دیکھ لیا آپ سے دل لگا کے دیکھ لیا دل کی بنیاد خود ہلا ڈالی اس کو نظریں بچا کے دیکھ لیا شاید اب بات کچھ بڑھے آگے اس نے بھی مسکرا کے دیکھ لیا مجھ کو جن سے وفا کی تھی امید ان کو بھی آزما کے دیکھ لیا پتھروں نے بھی سر نہیں چوما اس کے کوچے میں جا کے دیکھ لیا برق کا ...

    مزید پڑھیے

    مصلحت کے لئے اب سر نہ جھکایا جائے

    مصلحت کے لئے اب سر نہ جھکایا جائے دل نہ ملتے ہوں تو کیوں ہاتھ ملایا جائے کیف آور ہے بہت ان سے بچھڑ کر ملنا اور اک بار بچھڑ کر انہیں پایا جائے ہم اندھیروں ہی میں صحرا کا سفر کر لیں گے روشنی کے لئے خیمہ نہ جلایا جائے شجر ضبط سے ٹپکے نہ ثمر آنسو کا احتراماً اسے پلکوں پہ سجایا ...

    مزید پڑھیے

    دلوں میں پیار کا حسن و جمال پیدا ہو

    دلوں میں پیار کا حسن و جمال پیدا ہو کسی کے شیشۂ دل میں نہ بال پیدا ہو ہماری تیز زباں سے کبھی خدا نہ کرے کسی کے قلب میں کوئی ملال پیدا ہو نگاہ آئنہ بھی جس سے منحرف ہو جائے کسی کے حسن میں کیوں وہ زوال پیدا ہو جو میرے ذہن میں یادوں کی تتلیاں آئیں شب فراق میں رنگ وصال پیدا ہو خیال ...

    مزید پڑھیے

    حسرت ہو تمناؤں کا سیلاب ہو کیا ہو

    حسرت ہو تمناؤں کا سیلاب ہو کیا ہو تم زندہ حقیقت ہو کوئی خواب ہو کیا ہو جذبے کی صداقت ہو کہ احساس کی خوشبو تم شہر محبت کا حسیں باب ہو کیا ہو قدموں کی بھی آہٹ میں ہے اک ساز کی آواز بربط ہو کہ وینا ہو کہ مضراب ہو کیا ہو اے وعدۂ فردا کے سمندر مرے حق میں کشتی ہو کہ ساحل ہو کہ گرداب ہو ...

    مزید پڑھیے