مجھ کو نہ تھا معلوم تو ہے اس میں عجب کیا
مجھ کو نہ تھا معلوم تو ہے اس میں عجب کیا
یہ کون بتا سکتا ہے ہو جائے گا کب کیا
اس کا تو مزہ تب ہے کہ جب دائمی ہو جائے
کچھ دن کے لئے ہیں بھی تو ہیں عیش و طرب کیا
سایہ ہے کہیں نور مرا ذوق فراواں
سورج کی تپش کیا ہے یہ تاریکئ شب کیا
خود اٹھ کے چلی آتی ہے منزل مری جانب
ایسے میں ہو مجھ کو کسی منزل کی طلب کیا
اس نسل کو ہم نے ہی تو بے باک بنایا
ہو اپنے بزرگوں کا انہیں پاس و ادب کیا
جو روز نئی طرز ستم کرتے ہیں ایجاد
خود خوں میں وہ اک روز نہائیں تو عجب کیا
اللہ پہ فاروقؔ توکل تو کرے تو
پھر دیکھ ترے حق میں کرے گا ترا رب کیا