کیا خطا ہوئی ہم سے کچھ پتا نہیں ملتا
کیا خطا ہوئی ہم سے کچھ پتا نہیں ملتا
ہم دعا تو کرتے ہیں مدعا نہیں ملتا
اس سے لو لگاؤ تو اپنا سر جھکاؤ تو
پھر ذرا بتاؤ تو تم کو کیا نہیں ملتا
چل پڑیں تو منزل خود پاس آنے لگتی ہے
جب قدم نہیں اٹھتے راستہ نہیں ملتا
انگلیاں اٹھاتے ہیں جو مری وفاؤں پر
کیا انہیں حقیقت کا آئنہ نہیں ملتا
یوں تو ہیں حسیں لاکھوں آج بھی زمانے میں
لیکن آپ کے جیسا دوسرا نہیں ملتا
کون دیکھتا ہے اب خود میں حسن جاناناں
اپنا عکس اب کوئی چومتا نہیں ملتا
بھائی کو جدا کر دیں اپنے بھائیوں سے یہ
دل کو جوڑنے والا رہنما نہیں ملتا
ان کی برہمی کا ہے خوف دل میں اے فاروق
اب حسیں گناہوں میں بھی مزا نہیں ملتا