میں کر لوں سجدہ یہ جذب اثر ملے نہ ملے

میں کر لوں سجدہ یہ جذب اثر ملے نہ ملے
اثر ملے تو ترا سنگ در ملے نہ ملے


ہمارے ٹوٹے دلوں کو بھی جوڑئیے صاحب
پھر آپ سا کوئی آئینہ گر ملے نہ ملے


سفر ہی باندھ لیا پاؤں میں تو ڈرنا کیا
سلگتی دھوپ میں کوئی شجر ملے نہ ملے


خدا کرے کہ مری اس کی ایک ہو منزل
پھر اس کے جیسا کوئی ہم سفر ملے نہ ملے


نگاہ بھر کے در و بام دیکھ لینے دو
پلٹ کے آؤں تو پھر میرا گھر ملے نہ ملے


لگا دئیے ہیں شجر یہ خوشی ہی کیا کم ہے
اب ان درختوں کا مجھ کو ثمر ملے نہ ملے


انہیں خبر ہے مری ایک ایک دھڑکن کی
بلا سے مجھ کو کوئی نامہ بر ملے نہ ملے


نظر ملا کے وہ اک بار کہہ گئے سب کچھ
دوبارہ اب مری ان سے نظر ملے نہ ملے


ہمارا دل ہی ہمارا ہے راہبر فاروقؔ
اب اور کوئی ہمیں راہبر ملے نہ ملے