مصلحت کے لئے اب سر نہ جھکایا جائے

مصلحت کے لئے اب سر نہ جھکایا جائے
دل نہ ملتے ہوں تو کیوں ہاتھ ملایا جائے


کیف آور ہے بہت ان سے بچھڑ کر ملنا
اور اک بار بچھڑ کر انہیں پایا جائے


ہم اندھیروں ہی میں صحرا کا سفر کر لیں گے
روشنی کے لئے خیمہ نہ جلایا جائے


شجر ضبط سے ٹپکے نہ ثمر آنسو کا
احتراماً اسے پلکوں پہ سجایا جائے


چاندنی چاند مہک پھول شفق رنگ گلاب
اور کس نام سے اب ان کو بلایا جائے


جانے اس پار کے حالات ہوں کیسے اب کے
کشتیوں کو سر ساحل نہ جلایا جائے


سو رہا ہو کوئی تو اس کو جگائیں فاروقؔ
جاگتا ہو جو اسے کیسے جگایا جائے