پہلی سی مجھ پہ چشم عنایت نہیں رہی
پہلی سی مجھ پہ چشم عنایت نہیں رہی
شاید اب اس کو میری ضرورت نہیں رہی
بے وجہ کاٹ دیتا ہے میری ہر ایک بات
اس کی نظر میں اب مری قیمت نہیں رہی
مجھ سے گریز کرنے لگا جب سے میرا یار
مجھ کو بھی اس سے ملنے کی عجلت نہیں رہی
وہ بے وفا نہیں یہ مجھے ہے یقیں مگر
اب اعتبار کرنے کی ہمت نہیں رہی
جن سے ملے ہیں زخم انہیں بھی دعائیں دیں
دل میں مرے کسی سے کدورت نہیں رہی
بے سمت ہو کے رہ گئی بچوں کی زندگی
ماں باپ کی جو یاد نصیحت نہیں رہی
فاروقؔ سر پہ سایہ ہے ماں کی دعاؤں کا
تا حال مجھ پہ کوئی مصیبت نہیں رہی