قائم رکھیں آسودہ مکاں ہم دونوں
قائم رکھیں آسودہ مکاں ہم دونوں اک دوجے پر ہوں مہرباں ہم دونوں چلتا رہے ہمراہ شراب اور کباب اے کاش رہیں یوں ہی جواں ہم دونوں
قائم رکھیں آسودہ مکاں ہم دونوں اک دوجے پر ہوں مہرباں ہم دونوں چلتا رہے ہمراہ شراب اور کباب اے کاش رہیں یوں ہی جواں ہم دونوں
جب حشر میں ہوں پیش عمل کے دفتر لرزیدہ ترے قہر سے ہوں جن و بشر پروانہ ترے عشق کا ہوگا مرے ہاتھ کہہ دوں گا ذرا شمار اس کا بھی کر
خاشاک وجود ایک بھنور میں رہتا اے بے خبری اپنی خبر میں رہتا سانسوں نے نہیں چھوڑی وظیفہ خوانی مصروف میں کیا کار دگر میں رہتا
تسکین دل اور روح کا آرام پلا کم ہوگی ذرا سخت مے ایام پلا رگ رگ میں کھنچی جاتی ہے تشنہ لبی ساغر کی قسم جام پلا جام پلا
اے شاہ جنوں تیرے عرفاں کو سلام اے چاک جگر اس تن عریاں کو سلام حشمت کا طلب گار نہ تھا جاہ پسند غارتگریٔ عیش و ساماں کو سلام
روشن کبھی ہو جائیں گے دن رات مرے بس ایک وہی جانے ہے جذبات مرے مجھ کو تو فقط اس کے کرم پر ہے نظر ہیں مد نظر اس کے حالات مرے
ہر مسئلے کی تہہ میں اترنا نہیں ٹھیک اس زندگی کے ہاتھوں مرنا نہیں ٹھیک دنیا میں بہت کر کے یہ دیکھا میں نے اس دنیا میں کچھ بھی کرنا نہیں ٹھیک
پھیلی ہے عجب آگ تجھے اس سے کیا ساون ہے یا ماگھ تجھے اس سے کیا جلتا ہے کسی آگ میں تن من میرا دیپک ہوا ہر اگ تجھے اس سے کیا
اکثر میں یہاں مثل سمندر آیا ہاں دائرۂ عقل سے باہر آیا لوہے کے چنے چبانا ہے عشق فریدؔ جو کر نہ سکا کوئی وہ میں کر آیا
ہونٹوں پہ دعا آئی مگر آیا نہ تو پھر باد صبا آئی مگر آیا نہ تو سوندھی سوندھی مہک سے مہکا ماحول ساون کی گھٹا آئی مگر آیا نہ تو