Dheerendra Singh Faiyaz

دھیریندر سنگھ فیاض

دھیریندر سنگھ فیاض کی غزل

    کبھی یہ زندگی اچھی بھلی بھی گزری تھی

    کبھی یہ زندگی اچھی بھلی بھی گزری تھی ہمارے ہونٹوں سے یعنی ہنسی بھی گزری تھی ابھی سکوت ہے سہرا ہے دھول اڑتی ہے انہیں دو آنکھوں سے پہلے ندی بھی گزری تھی تمام لفظوں کی سرگوشیاں سنیں شب بھر صدائیں دیتی ہوئی شاعری بھی گزری تھی ہر ایک راہ میں ہر لحظہ ڈھونڈھتا ہوں میں یہاں سے عشق کی ...

    مزید پڑھیے

    اپنی تنہائی زندگی کر لی

    اپنی تنہائی زندگی کر لی ضبط چھلکا تو شاعری کر لی رنگ میں ڈھلتے ہوئے ترے میں نے شکل تک اپنی سانولی کر لی رات بھر آسمان میں بھٹکا چاند نے صبح خودکشی کر لی جب زباں والے بے وفا نکلے بے زبانوں سے دوستی کر لی تو مرے حاصلوں میں ہے تو نہیں پھر بھی خواہش کبھی کبھی کر لی پھر کیا عشق اور ...

    مزید پڑھیے

    سوچ کر دیکھیے کیا خوب نظارا ہوگا

    سوچ کر دیکھیے کیا خوب نظارا ہوگا اس نے جب رہ کے میرا نام پکارا ہوگا ہم نے سوچا تھا کہ اب غم سے کنارا ہوگا پر کہاں تھی یہ خبر عشق دوبارہ ہوگا کیا کہیں کب سے یہ امید لیے بیٹھے ہیں اس کی جانب سے کبھی کوئی اشارہ ہوگا تجھ کو دیکھوں تو کوئی اور نظر آتا ہے تو نے اس شخص کو دن رات گزارا ...

    مزید پڑھیے

    کسی قلم سے کسی کی زباں سے چلتا ہوں

    کسی قلم سے کسی کی زباں سے چلتا ہوں میں تیر کس کا ہوں کس کی کماں سے چلتا ہوں میں تھک گیا ہوں ٹھہر کر کسی سمندر سا با رنگ ابر ترے آستاں سے چلتا ہوں تو چھوڑ دے گا ادھورا مجھے کہانی میں اسی لیے میں تری داستاں سے چلتا ہوں جو میرے سینہ کے بائیں طرف دھڑکتا ہے اسی کے نقش قدم پر وہاں سے ...

    مزید پڑھیے

    پھر سے اک بار اسے خود پہ ستم ڈھانے دوں

    پھر سے اک بار اسے خود پہ ستم ڈھانے دوں یعنی وہ لوٹ کے آئے تو اسے آنے دوں نیند کے زخم کے بارے میں نہ سوچوں اتنا آنکھ اگر خواب سے گھبرائے تو گھبرانے دوں پیاس اتنی بھی نہیں ہے کہ میں روکوں تجھ کو دل بھرا بھی نہیں اتنا کہ تجھے جانے دوں ایک بس عشق کے بدلے میں دیا ہجر اس نے اتنی سی بات ...

    مزید پڑھیے

    مرا یقین ہے وہ آئنا نکالے گی

    مرا یقین ہے وہ آئنا نکالے گی وہ نقص مجھ میں ہی پھر کچھ نیا نکالے گی مجھے بھی کچھ نہیں کہنا کہ اب خموشی ہی ہمارے بیچ کوئی راستہ نکالے گی جبیں پہ اس کی شکن ہے نہ آنکھ میں پانی بھلا وہ دل سے ہمیں اور کیا نکالے گی مری خموشی کا مطلب تھا صرف خاموشی وہ اس میں پہلو مگر دوسرا نکالے گی اے ...

    مزید پڑھیے

    میری خاموشی ہی کام آئی کہا جاتا ہے

    میری خاموشی ہی کام آئی کہا جاتا ہے اس کو انداز شکیبائی کہا جاتا ہے بھیڑ میں ایک بدن آپ سے مانوس نہ ہو بس یہی واقعہ تنہائی کہا جاتا ہے تیری جانب سے جو ہوتے ہیں اشارے ان کو عشق میں حوصلہ افزائی کہا جاتا ہے میری وحشت نے اندھیرے میں اسے ڈھونڈھ لیا اب اسی تاب کو بینائی کہا جاتا ...

    مزید پڑھیے

    دیکھتے دیکھتے ہی سال گزر جاتا ہے

    دیکھتے دیکھتے ہی سال گزر جاتا ہے پر ترا غم ہے کہ بڑھتا ہے ٹھہر جاتا ہے تیرتی رہتی ہے آنکھوں میں تو ہر شب ایسے جیسے دریا میں کوئی چاند اتر جاتا ہے کون اس خواب کی تعبیر پہ کرتا ہے یقیں خواب جو نیند سے لڑتا ہوا مر جاتا ہے ہم نے آنکھوں کی زبانوں پہ لگائے ہیں قفل ورنہ دل تیری ہی ...

    مزید پڑھیے

    مرے خیال میں تھی میرے حافظے میں تھی

    مرے خیال میں تھی میرے حافظے میں تھی عجیب شے تھی مگر پھر بھی فاصلے میں تھی بدن سے جان تو کب کی جدا ہوئی یعنی ہماری سانس ابھی تک مغالطے میں تھی ہماری نیند جو بہکی تو یہ کھلا ہم پر ہماری آنکھ ترے خواب کے نشے میں تھی وہ بات ہی نہیں جاناں کسی تصور میں جو ایک بات فقط تجھ کو سوچنے میں ...

    مزید پڑھیے

    مرے یہاں تری آواز رہ گئی باقی

    مرے یہاں تری آواز رہ گئی باقی ترا نشاں تری آواز رہ گئی باقی بس اک یقین بدن دور لے گئی ہے تو بس اک گماں تری آواز رہ گئی باقی ہمارے گھر کے وہ کونے بھی ہو گئے پاگل جہاں جہاں تری آواز رہ گئی باقی سنائی دی ابھی پتوں کی سرسراہٹ میں کہاں کہاں تری آواز رہ گئی باقی ہر ایک کونے سے کمرے کے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 3 سے 4