کسی قلم سے کسی کی زباں سے چلتا ہوں
کسی قلم سے کسی کی زباں سے چلتا ہوں
میں تیر کس کا ہوں کس کی کماں سے چلتا ہوں
میں تھک گیا ہوں ٹھہر کر کسی سمندر سا
با رنگ ابر ترے آستاں سے چلتا ہوں
تو چھوڑ دے گا ادھورا مجھے کہانی میں
اسی لیے میں تری داستاں سے چلتا ہوں
جو میرے سینہ کے بائیں طرف دھڑکتا ہے
اسی کے نقش قدم پر وہاں سے چلتا ہوں
یہاں سے چلنے کا مطلب تو اور ہے لیکن
میں تھک چکا ہوں مری جاں یہاں سے چلتا ہوں
اب اگر چاہے تو لوگوں کے بیچ لے آنا
میں آج اپنے ترے درمیاں سے چلتا ہوں
نہ جانے کیسے سفر میں ہوں مبتلا فیاضؔ
وہیں پہ آتا ہوں واپس جہاں سے چلتا ہوں