مرا یقین ہے وہ آئنا نکالے گی

مرا یقین ہے وہ آئنا نکالے گی
وہ نقص مجھ میں ہی پھر کچھ نیا نکالے گی


مجھے بھی کچھ نہیں کہنا کہ اب خموشی ہی
ہمارے بیچ کوئی راستہ نکالے گی


جبیں پہ اس کی شکن ہے نہ آنکھ میں پانی
بھلا وہ دل سے ہمیں اور کیا نکالے گی


مری خموشی کا مطلب تھا صرف خاموشی
وہ اس میں پہلو مگر دوسرا نکالے گی


اے دنیا بول مگر کچھ نہیں سنوں گا میں
زباں سے جو بھی تو اچھا برا نکالے گی


ہمیں نہ سدھ ہے نہ ہم دستکیں ہی سنتے ہیں
تو اپنے دل سے ہمیں کیا بھلا نکالے گی


میں دوریوں میں بھی نزدیکیاں نکالتا ہوں
وہ فاصلوں میں بھی کچھ فاصلہ نکالے گی