کبھی یہ زندگی اچھی بھلی بھی گزری تھی
کبھی یہ زندگی اچھی بھلی بھی گزری تھی
ہمارے ہونٹوں سے یعنی ہنسی بھی گزری تھی
ابھی سکوت ہے سہرا ہے دھول اڑتی ہے
انہیں دو آنکھوں سے پہلے ندی بھی گزری تھی
تمام لفظوں کی سرگوشیاں سنیں شب بھر
صدائیں دیتی ہوئی شاعری بھی گزری تھی
ہر ایک راہ میں ہر لحظہ ڈھونڈھتا ہوں میں
یہاں سے عشق کی سنکری گلی بھی گزری تھی
مجھے ہی بات نہیں کرنی تھی کوئی ورنہ
مرے قریب سے کل زندگی بھی گزری تھی
جہاں پہ زندگی بیٹھی ہے پاؤں پھیلا کر
اسی گلی سے کبھی خودکشی بھی گزری تھی
ابھی تو صرف گزرتی ہے مجھ پہ تنہائی
کبھی مجھی سے تمہاری کمی بھی گزری تھی