پھر سے اک بار اسے خود پہ ستم ڈھانے دوں
پھر سے اک بار اسے خود پہ ستم ڈھانے دوں
یعنی وہ لوٹ کے آئے تو اسے آنے دوں
نیند کے زخم کے بارے میں نہ سوچوں اتنا
آنکھ اگر خواب سے گھبرائے تو گھبرانے دوں
پیاس اتنی بھی نہیں ہے کہ میں روکوں تجھ کو
دل بھرا بھی نہیں اتنا کہ تجھے جانے دوں
ایک بس عشق کے بدلے میں دیا ہجر اس نے
اتنی سی بات پہ کیا خاک اسے طعنے دوں
تیرے ماتھے کی لکیروں کو مٹا دوں یکسر
لا جبیں پاس ترے رنج کو میں شانے دوں
لوگ یہ چاہتے ہیں بات نہ مانوں دل کی
روح کھائے گی بدن اور بدن کھانے دوں
تیری وحشت کے تئیں آنکھ مناسب ہے مری
آ تجھے ایک نہیں بلکہ دو ویرانے دوں