میری خاموشی ہی کام آئی کہا جاتا ہے

میری خاموشی ہی کام آئی کہا جاتا ہے
اس کو انداز شکیبائی کہا جاتا ہے


بھیڑ میں ایک بدن آپ سے مانوس نہ ہو
بس یہی واقعہ تنہائی کہا جاتا ہے


تیری جانب سے جو ہوتے ہیں اشارے ان کو
عشق میں حوصلہ افزائی کہا جاتا ہے


میری وحشت نے اندھیرے میں اسے ڈھونڈھ لیا
اب اسی تاب کو بینائی کہا جاتا ہے


تیرے عارض کو جو آتی ہیں ہوائیں چھو کر
ان کو اس دیس میں پروائی کہا جاتا ہے


کہہ دیا تھا مرے جس لہجے کو دنیا نے فضول
اب وہی شعر کی گہرائی کہا جاتا ہے


لفظ آرائی کا تو مجھ میں ہنر ہے لیکن
مجھ کو آتی نہیں گویائی کہا جاتا ہے