تیرے در تک آؤں میں
تیرے در تک آؤں میں آئینہ ہو جاؤں میں منزل اپنی ڈھونڈے وہ اور رستہ ہو جاؤں میں اس کا کوئی ذکر نا ہو اور رسوا ہو جاؤں میں سب کے دعوے واجب ہیں کس کے حصے آؤں میں تنہائی کو ساتھ لئے بھیڑ نہیں ہو جاؤں میں
تیرے در تک آؤں میں آئینہ ہو جاؤں میں منزل اپنی ڈھونڈے وہ اور رستہ ہو جاؤں میں اس کا کوئی ذکر نا ہو اور رسوا ہو جاؤں میں سب کے دعوے واجب ہیں کس کے حصے آؤں میں تنہائی کو ساتھ لئے بھیڑ نہیں ہو جاؤں میں
شام سے ضد پر اڑے ہیں خواب پلکوں پر کھڑے ہیں یہ شکن آلود بستر نیند کے ٹکڑے پڑے ہیں رات کی کالی ردا میں قیمتی موتی جڑے ہیں رات بھر پاگل ہوا سے گھر کے دروازے لڑے ہیں ہو سکے تو سر جھکا لے وقت کے تیور کڑے ہیں
تیرے جلووں نے کیسی شرط رکھ دی کی خوشبو دیکھنے کی شرط رکھ دی پرندوں کا بسیرا اور چھتوں پر تو کیا پیڑوں نے کوئی شرط رکھ دی مرے مالک نے آنکھیں تو عطا کیں مگر ان میں نمی کی شرط رکھ دی پرندوں کی اڑانیں چھین لیں اور حدوں کو ناپنے کی شرط رکھ دی سبھی تھے ایکتا کے حق میں لیکن سبھی نے ...
ایسے درکنار ہو گئے حاشیے کے پار ہو گئے کیا تھی وہ جدائی کی خبر لفظ تار تار ہو گئے برسوں بعد یہ پتا چلا ہم کہیں شکار ہو گئے تیرے بعد کیا بتائیں ہم کیسے بے حصار ہو گئے اک تری صدا نے کیا چھوا درد بے قطار ہو گئے
کھونے کا ملال رہ گیا آئنے میں بال رہ گیا تیرے بعد اپنا مشغلہ غم کی دیکھ بھال رہ گیا تیرے اس ہنر کے سامنے میرا سب کمال رہ گیا پہلے تیرے رنگ تھے وہاں مکڑیوں کا جال رہ گیا
ادھورا ہی رہے ہر راستہ تو نا پہنچے منزلوں تک سلسلہ تو جسے چاہیں وہی کھو جائے ہم سے ہمارے ساتھ پھر ایسا ہوا تو جہاں آوارگی بکھری پڑی ہو میں اس رستہ سے منزل پا گیا تو تجھے پانے میں خود کو بھول بیٹھا تجھے پا کر بھی میں تنہا رہا تو یقیں کر کے ترے پیچھے چلے ہیں نظر آئے نا پھر بھی ...
لمحے تیری جدائی کے حصے ہیں تنہائی کے ایک ہی جیسے قصے ہیں شہرت اور رسوائی کے دھڑکن دھڑکن بجتے ہیں ساتوں سر شہنائی کے تیرے ظرف سے کتنے کم پیمانے گہرائی کے تیری یاد میں شامل ہی کچھ جھونکے پروائی کے
اپنے آپ کو یوں سمجھاتے رہتے ہیں امیدوں کے پر سہلاتے رہتے ہے اپنے گھر میں گھر جیسی اک بات تو ہے دکھ سکھ دونو آتے جاتے رہتے ہیں تصویروں کا شوق کہاں تک لے آیا پرچھائیں پے عکس بناتے رہتے ہیں اپنا ضبط نا ٹوٹے اس کے خاطر ہم دیواروں کو درد سناتے رہتے ہیں
ہواؤں میں بکھر جاؤں تجھے چھو کر گزر جاؤں تقاضے منتظر ہوں گے میں کیسے اپنے گھر جاؤں اتاروں قرض آئینہ تجھے دیکھوں سنور جاؤں سفر ہے تیری مرضی پر صدا دے تو ٹھہر جاؤں وہ اگلے موڑ پے گھر ہے وہ موڑ آئے تو گھر جاؤں
یہ اس کی نیند کو کیا ہو گیا ہے مری آنکھوں میں شب بھر جاگتا ہے یہاں کیسے رہیں محفوظ چہرے یہاں ٹوٹا ہوا ہر آئنہ ہے یقیں اس بات کا اب تک نہیں ہے کہ میری پیاس سے دریا بڑا ہے دماغ و دل ہیں پہرے دار جیسے جو اک سوئے تو دوجا جاگتا ہے