Deepak Jain Deep

دیپک جین دیپ

دیپک جین دیپ کی غزل

    تیرے در تک آؤں میں

    تیرے در تک آؤں میں آئینہ ہو جاؤں میں منزل اپنی ڈھونڈے وہ اور رستہ ہو جاؤں میں اس کا کوئی ذکر نا ہو اور رسوا ہو جاؤں میں سب کے دعوے واجب ہیں کس کے حصے آؤں میں تنہائی کو ساتھ لئے بھیڑ نہیں ہو جاؤں میں

    مزید پڑھیے

    شام سے ضد پر اڑے ہیں

    شام سے ضد پر اڑے ہیں خواب پلکوں پر کھڑے ہیں یہ شکن آلود بستر نیند کے ٹکڑے پڑے ہیں رات کی کالی ردا میں قیمتی موتی جڑے ہیں رات بھر پاگل ہوا سے گھر کے دروازے لڑے ہیں ہو سکے تو سر جھکا لے وقت کے تیور کڑے ہیں

    مزید پڑھیے

    تیرے جلووں نے کیسی شرط رکھ دی

    تیرے جلووں نے کیسی شرط رکھ دی کی خوشبو دیکھنے کی شرط رکھ دی پرندوں کا بسیرا اور چھتوں پر تو کیا پیڑوں نے کوئی شرط رکھ دی مرے مالک نے آنکھیں تو عطا کیں مگر ان میں نمی کی شرط رکھ دی پرندوں کی اڑانیں چھین لیں اور حدوں کو ناپنے کی شرط رکھ دی سبھی تھے ایکتا کے حق میں لیکن سبھی نے ...

    مزید پڑھیے

    ایسے درکنار ہو گئے

    ایسے درکنار ہو گئے حاشیے کے پار ہو گئے کیا تھی وہ جدائی کی خبر لفظ تار تار ہو گئے برسوں بعد یہ پتا چلا ہم کہیں شکار ہو گئے تیرے بعد کیا بتائیں ہم کیسے بے حصار ہو گئے اک تری صدا نے کیا چھوا درد بے قطار ہو گئے

    مزید پڑھیے

    کھونے کا ملال رہ گیا

    کھونے کا ملال رہ گیا آئنے میں بال رہ گیا تیرے بعد اپنا مشغلہ غم کی دیکھ بھال رہ گیا تیرے اس ہنر کے سامنے میرا سب کمال رہ گیا پہلے تیرے رنگ تھے وہاں مکڑیوں کا جال رہ گیا

    مزید پڑھیے

    ادھورا ہی رہے ہر راستہ تو

    ادھورا ہی رہے ہر راستہ تو نا پہنچے منزلوں تک سلسلہ تو جسے چاہیں وہی کھو جائے ہم سے ہمارے ساتھ پھر ایسا ہوا تو جہاں آوارگی بکھری پڑی ہو میں اس رستہ سے منزل پا گیا تو تجھے پانے میں خود کو بھول بیٹھا تجھے پا کر بھی میں تنہا رہا تو یقیں کر کے ترے پیچھے چلے ہیں نظر آئے نا پھر بھی ...

    مزید پڑھیے

    لمحے تیری جدائی کے

    لمحے تیری جدائی کے حصے ہیں تنہائی کے ایک ہی جیسے قصے ہیں شہرت اور رسوائی کے دھڑکن دھڑکن بجتے ہیں ساتوں سر شہنائی کے تیرے ظرف سے کتنے کم پیمانے گہرائی کے تیری یاد میں شامل ہی کچھ جھونکے پروائی کے

    مزید پڑھیے

    اپنے آپ کو یوں سمجھاتے رہتے ہیں

    اپنے آپ کو یوں سمجھاتے رہتے ہیں امیدوں کے پر سہلاتے رہتے ہے اپنے گھر میں گھر جیسی اک بات تو ہے دکھ سکھ دونو آتے جاتے رہتے ہیں تصویروں کا شوق کہاں تک لے آیا پرچھائیں پے عکس بناتے رہتے ہیں اپنا ضبط نا ٹوٹے اس کے خاطر ہم دیواروں کو درد سناتے رہتے ہیں

    مزید پڑھیے

    ہواؤں میں بکھر جاؤں

    ہواؤں میں بکھر جاؤں تجھے چھو کر گزر جاؤں تقاضے منتظر ہوں گے میں کیسے اپنے گھر جاؤں اتاروں قرض آئینہ تجھے دیکھوں سنور جاؤں سفر ہے تیری مرضی پر صدا دے تو ٹھہر جاؤں وہ اگلے موڑ پے گھر ہے وہ موڑ آئے تو گھر جاؤں

    مزید پڑھیے

    یہ اس کی نیند کو کیا ہو گیا ہے

    یہ اس کی نیند کو کیا ہو گیا ہے مری آنکھوں میں شب بھر جاگتا ہے یہاں کیسے رہیں محفوظ چہرے یہاں ٹوٹا ہوا ہر آئنہ ہے یقیں اس بات کا اب تک نہیں ہے کہ میری پیاس سے دریا بڑا ہے دماغ و دل ہیں پہرے دار جیسے جو اک سوئے تو دوجا جاگتا ہے

    مزید پڑھیے