اپنے آپ کو یوں سمجھاتے رہتے ہیں

اپنے آپ کو یوں سمجھاتے رہتے ہیں
امیدوں کے پر سہلاتے رہتے ہے


اپنے گھر میں گھر جیسی اک بات تو ہے
دکھ سکھ دونو آتے جاتے رہتے ہیں


تصویروں کا شوق کہاں تک لے آیا
پرچھائیں پے عکس بناتے رہتے ہیں


اپنا ضبط نا ٹوٹے اس کے خاطر ہم
دیواروں کو درد سناتے رہتے ہیں