اوصاف شیخ کی غزل

    ٹھہر گیا ہے ایک ہی منظر کمرے میں

    ٹھہر گیا ہے ایک ہی منظر کمرے میں میں تیری تصویر دسمبر کمرے میں میں تیری یادوں کی بارش تیز ہوا تنہا بھیگ رہا ہے بستر کمرے میں میں دریا کے پار کی سوچ رہا ہوں اور در آیا ہے ایک سمندر کمرے میں لے آئی ہے گلیوں میں اک آگ مجھے چھوڑ آیا ہوں ٹھنڈا بستر کمرے میں خوف زدہ ہیں گھر کی ساری ...

    مزید پڑھیے

    ہے کبھی دل کبھی نگاہ سے جنگ

    ہے کبھی دل کبھی نگاہ سے جنگ روز اک خواہش گناہ سے جنگ روز غم کے نئے محاذ پہ ہوں روز لڑنا نئی سپاہ سے جنگ چار سو گرم ہے محاذ کوئی کہیں منصف کہیں گواہ سے جنگ مدتوں سے یہی تماشا ہے خواہشوں کی دل تباہ سے جنگ سنگ بھی ہاتھ میں نہیں کوئی چھڑ گئی ہے سگان راہ سے جنگ میرے اندر سے کوئی ...

    مزید پڑھیے

    جب اس نے واپسی کے راستے رکھے ہوئے ہیں

    جب اس نے واپسی کے راستے رکھے ہوئے ہیں نظر میں ہم نے بھی کچھ زاویے رکھے ہوئے ہیں یہ کیسا کھیل ہے تیری گلی کے باسیوں نے منڈیروں پر سجا کر آئنے رکھے ہوئے ہیں مزا اب زندگی کا ہم کو بھی آنے لگا ہے کہ ہم نے دوستوں سے فاصلے رکھے ہوئے ہیں وفا کے راستے میں آج بھی وہ مشکلیں ہیں کنارے پر ...

    مزید پڑھیے

    کھڑکیاں سونی در و دیوار چپ

    کھڑکیاں سونی در و دیوار چپ ساری گلیاں اور بھرے بازار چپ کس قیامت کی خبر آنے کو ہے گاؤں کے چوپال چپ اخبار چپ درمیاں ہے خوف کا دریا رواں میں یہاں خاموش وہ اس پار چپ اک صدا اس کو بلانے کے لیے اک صدا آئے مجھے ہر بار چپ کیسا قحط آدمیت ہے یہاں زندگانی کے سبھی آثار چپ کس قیامت کا ہے ...

    مزید پڑھیے

    ہے بپا اک حشر سا دیوار پر

    ہے بپا اک حشر سا دیوار پر کون پڑھتا ہے لکھا دیوار پر میں نے پوچھا کیا پس دیوار ہے اس نے لکھا دائرہ دیوار پر آؤ آداب محبت سیکھ لو لکھ دیا ہے ضابطہ دیوار پر اب نہ چھائے گا طلسم تیرگی چھوڑ آیا ہوں دیا دیوار پر سر اٹھاتی سر پٹختی ہے ندی مسکراتا ہے گھڑا دیوار پر چھوڑ دی تیری گلی ...

    مزید پڑھیے

    ایک احساس زیاں چھوڑے گا

    ایک احساس زیاں چھوڑے گا ہجر ہے یہ تو نشاں چھوڑے گا یا بلائے گا سر دشت بلا یا سر نوک سناں چھوڑے گا پہلے رستے سے اٹھائے گا یقیں اور پھر اس پہ گماں چھوڑے گا میں بھی بولوں گا بہت بولوں گا خوف جب میری زباں چھوڑے گا جانتا ہوں کہ وہ چھوڑے گا ضرور دیکھنا ہے کہ کہاں چھوڑے گا شہریاری نہ ...

    مزید پڑھیے

    بچا کر شہر سے سر آ گیا ہوں

    بچا کر شہر سے سر آ گیا ہوں میں بھر کر جیب میں ڈر آ گیا ہوں نہیں معلوم وحشت ہے کہ دہشت کنویں سے پیاس بھر کر آ گیا ہوں کماتا کیا مسلسل ہجرتوں میں بچایا یہ ہے کہ گھر آ گیا ہوں گلی میں بھونکتے کتوں کے ڈر سے تجھے دیکھے بنا گھر آ گیا ہوں یہاں اوصافؔ دریا بھی ہے پیاسا گھڑے میں ریت بھر ...

    مزید پڑھیے

    کب اترے گا روح سے گارا مٹی کا

    کب اترے گا روح سے گارا مٹی کا مٹی کی ہے جھیل کنارا مٹی کا میں نے ہر دم کی دل داری مٹی کی میں نے ہر دم قرض اتارا مٹی کا میں نے چودہ چاند کئے ہیں جس کے نام اس نے بھیجا ایک ستارا مٹی کا مٹی کو روندا مٹی کا خون کیا ہوگا آخر کار اجارہ مٹی کا آنکھوں میں ہے صحراؤں سا سونا پن پاؤں کے نیچے ...

    مزید پڑھیے

    ٹوٹ کر بکھرے ہیں سپنے صحن میں

    ٹوٹ کر بکھرے ہیں سپنے صحن میں کس نے کھینچے ہیں یہ رستے صحن میں کون دیتا ہے اداسی کو فریب کون اگاتا ہے یہ چہرے صحن میں کوئی سمجھا ہی نہیں اک لفظ بھی گونجتے ہیں کتنے لہجے صحن میں اک شجر بھی نام کو گھر میں نہیں اڑ رہے ہیں خشک پتے صحن میں جانے کب ٹوٹے طلسم تیرگی جانے کب اتریں سویرے ...

    مزید پڑھیے

    بس محبت میں ترا ہجر کمایا ہوا ہے

    بس محبت میں ترا ہجر کمایا ہوا ہے اور اس ہجر کو آنگن میں اگایا ہوا ہے تو جسے دشت سمجھتا ہے یہ اب دشت نہیں میں نے اس دشت میں اک شہر بسایا ہوا ہے یہ جو اک روشنی پہلو سے مرے پھوٹتی ہے یہ وہی زخم ہے جو تو نے لگایا ہوا ہے آنکھ سورج سے ملاتے ہوئے کتراتا ہوں میں نے آنکھوں میں کوئی چاند ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2