ٹوٹ کر بکھرے ہیں سپنے صحن میں
ٹوٹ کر بکھرے ہیں سپنے صحن میں
کس نے کھینچے ہیں یہ رستے صحن میں
کون دیتا ہے اداسی کو فریب
کون اگاتا ہے یہ چہرے صحن میں
کوئی سمجھا ہی نہیں اک لفظ بھی
گونجتے ہیں کتنے لہجے صحن میں
اک شجر بھی نام کو گھر میں نہیں
اڑ رہے ہیں خشک پتے صحن میں
جانے کب ٹوٹے طلسم تیرگی
جانے کب اتریں سویرے صحن میں
چھوڑ جاتا ہے کوئی آنکھیں یہاں
کھول جاتا ہے دریچے صحن میں
رات پھر اوصافؔ یاد آیا کوئی
رات جیسے پھول مہکے صحن میں