بچا کر شہر سے سر آ گیا ہوں

بچا کر شہر سے سر آ گیا ہوں
میں بھر کر جیب میں ڈر آ گیا ہوں


نہیں معلوم وحشت ہے کہ دہشت
کنویں سے پیاس بھر کر آ گیا ہوں


کماتا کیا مسلسل ہجرتوں میں
بچایا یہ ہے کہ گھر آ گیا ہوں


گلی میں بھونکتے کتوں کے ڈر سے
تجھے دیکھے بنا گھر آ گیا ہوں


یہاں اوصافؔ دریا بھی ہے پیاسا
گھڑے میں ریت بھر کر آ گیا ہوں