بس محبت میں ترا ہجر کمایا ہوا ہے
بس محبت میں ترا ہجر کمایا ہوا ہے
اور اس ہجر کو آنگن میں اگایا ہوا ہے
تو جسے دشت سمجھتا ہے یہ اب دشت نہیں
میں نے اس دشت میں اک شہر بسایا ہوا ہے
یہ جو اک روشنی پہلو سے مرے پھوٹتی ہے
یہ وہی زخم ہے جو تو نے لگایا ہوا ہے
آنکھ سورج سے ملاتے ہوئے کتراتا ہوں
میں نے آنکھوں میں کوئی چاند بسایا ہوا ہے
روٹھنا بھی نہیں آتا نہ منانا تجھ کو
پیار کو تو نے تماشا سا بنایا ہوا ہے
وہ محبت کا وہ گیت سناتا ہے مجھے
میں نے اوصافؔ جو لوگوں کو سکھایا ہوا ہے