ایک احساس زیاں چھوڑے گا

ایک احساس زیاں چھوڑے گا
ہجر ہے یہ تو نشاں چھوڑے گا


یا بلائے گا سر دشت بلا
یا سر نوک سناں چھوڑے گا


پہلے رستے سے اٹھائے گا یقیں
اور پھر اس پہ گماں چھوڑے گا


میں بھی بولوں گا بہت بولوں گا
خوف جب میری زباں چھوڑے گا


جانتا ہوں کہ وہ چھوڑے گا ضرور
دیکھنا ہے کہ کہاں چھوڑے گا


شہریاری نہ تھی تیرے بس میں
میں نہ کہتا تھا میاں چھوڑے گا


جو روایت ہے وہ پوری ہوگی
عشق مجھ کو بھی کہاں چھوڑے گا


میں ہی اوصافؔ لکھوں گا انجام
یہ کہانی وہ جہاں چھوڑے گا