ہے کبھی دل کبھی نگاہ سے جنگ
ہے کبھی دل کبھی نگاہ سے جنگ
روز اک خواہش گناہ سے جنگ
روز غم کے نئے محاذ پہ ہوں
روز لڑنا نئی سپاہ سے جنگ
چار سو گرم ہے محاذ کوئی
کہیں منصف کہیں گواہ سے جنگ
مدتوں سے یہی تماشا ہے
خواہشوں کی دل تباہ سے جنگ
سنگ بھی ہاتھ میں نہیں کوئی
چھڑ گئی ہے سگان راہ سے جنگ
میرے اندر سے کوئی کہتا ہے
چھیڑ ارباب عز و جاہ سے جنگ
اب تو اوصافؔ ہر بساط پہ ہے
اک پیادے کی ایک شاہ سے جنگ