اطہر ضیائی کی غزل

    کم کسی کشتۂ آلام کی پرسش کی ہے

    کم کسی کشتۂ آلام کی پرسش کی ہے ورنہ دنیا نے تو خود اپنی پرستش کی ہے ہم ہی کم فہم تھے سمجھے ستم ایجاد تمہیں تم نے تو ہم پہ عنایات کی بارش کی ہے سچ تو یہ ہے کہ برابر کے ہیں مجرم دونوں آپ کی نظروں نے دل سے مرے سازش کی ہے زندگی قرض سمجھ کر میں جئے جاتا ہوں اب تمنا نہ صلے کی نہ ستائش کی ...

    مزید پڑھیے

    فاصلے ہیں صدیوں کے اور زندگی تنہا

    فاصلے ہیں صدیوں کے اور زندگی تنہا درد سر دو عالم کا ایک آدمی تنہا شعلۂ حوادث نے حوصلہ دیا ورنہ بجھ کے رہ گئی ہوتی شمع زندگی تنہا زندگی میں آمیزش ان کی رنگ بھرتی ہے دوستی ہی کام آئے اور نہ دشمنی تنہا پوچھتا ہے کب کوئی حال ان چراغوں کا روشنی دکھاتے ہیں جو گلی گلی تنہا تھی نفس ...

    مزید پڑھیے

    داغ دل زخم جگر یاد آیہ (ردیف .. ا)

    داغ دل زخم جگر یاد آیہ جب وہ محبوب نظر یاد آیا یک بہ یک بجھ گئے آنکھوں کے دیے کون یہ رشک قمر یاد آیا لگ سکی آنکھ نہ پھر تا بہ سحر جب وہ خوابوں کا نگر یاد آیہ نظر آتے ہی نشان منزل دفعتاً رخت سفر یاد آیا شدت شوق حضوری میں مجھے سجدہ یاد آیا نہ سر یاد آیا مرکز فکر تھا اک مہر ...

    مزید پڑھیے

    فروغ کثرت جلوہ سے خود تماشا ہوں

    فروغ کثرت جلوہ سے خود تماشا ہوں میں اس کے سامنے بیٹھا ہوں اور تنہا ہوں نگاہ شوق و دل مضطرب ہیں زاد سفر شکستہ پا ہوں سر رہ گزار بیٹھا ہوں بڑھاؤں دست طلب کیا کہ ظرف مانع ہے لب فرات کھڑا ہوں میں اور پیاسا ہوں میں اپنی ذات میں اک کائنات ہوں خود بھی اگرچہ ذرہ ہوں لیکن محیط صحرا ...

    مزید پڑھیے

    وہ ایک شخص بظاہر جو آشنا نہ لگے

    وہ ایک شخص بظاہر جو آشنا نہ لگے وفا کا نام نہ لے اور بے وفا نہ لگے مرا خلوص کہ اعجاز حسن یار ہے یہ جہاں بھی سجدہ کروں اس کا آستانہ لگے حیات عین حقیقت سہی بہ فیض نگاہ حیات پھر بھی حقیقت میں کیوں فسانہ لگے خدا کرے نہ ہو محروم یوں جہاں میں کوئی دوا جسے نہ میسر ہو اور دعا نہ لگے نہ ...

    مزید پڑھیے

    ہر قدم تھے نئے صیاد نئے دام کے ساتھ

    ہر قدم تھے نئے صیاد نئے دام کے ساتھ دور ہوتی گئی منزل مری ہر گام کے ساتھ جسم محبوس ہے اور حکم زباں بندی ہے کتنے الزام ہیں وابستہ مرے نام کے ساتھ نشۂ تلخیٔ دوراں کا اثر کیا کہنا زندگی رقص میں ہے گردش ایام کے ساتھ اتنی خوش رنگ یہ کافر کبھی پہلے تو نہ تھی خون حسرت تو نہیں ہے مئے ...

    مزید پڑھیے

    عجیب لوگ ہیں گل کرکے زندگی کے چراغ

    عجیب لوگ ہیں گل کرکے زندگی کے چراغ جلائے بیٹھے ہیں اپنے گھروں میں گھی کے چراغ بھٹک رہے ہیں اندھیروں میں مہر و ماہ و نجوم ہر ایک سمت فروزاں ہیں تیرگی کے چراغ نظر نظر میں دئے حسرتوں کے لرزاں ہیں قدم قدم پہ ہیں رقصاں فسردگی کے چراغ چمن میں زاغ و زغن کی بپا وہ شورش ہے کہ چھن گئے ہیں ...

    مزید پڑھیے

    رو بہ رو سب ہیں کوئی گوش بر آواز نہیں

    رو بہ رو سب ہیں کوئی گوش بر آواز نہیں یہ وہ انجام ہے جس کا ابھی آغاز نہیں عرصۂ حشر ہے یا رب کہ ہے بزم گیتی کسی آواز میں شامل کوئی آواز نہیں وقت مجھ کو نظر انداز نہیں کر سکتا میں ابھی وقت کے آگے سپر انداز نہیں دل ہر ذرہ کی دھڑکن میں سمک تا بہ‌‌ سما بازگشت اس کی ہے جس کی کوئی آواز ...

    مزید پڑھیے

    ہمارا ذکر اور ان کی زباں سے

    ہمارا ذکر اور ان کی زباں سے کہاں نسبت زمیں کو آسماں سے کہوں کیونکر نظر سے تو نہاں ہے پتا اپنا ملا تیرے نشاں سے ہوا یوں بھی کہ اس کی سمت اکثر چلے اور لوٹ آئے درمیاں سے جلیں جب فصل گل میں بھی نشیمن تو پھر کیا کیجئے شکوہ خزاں سے فریب زندگی کھائیں کہاں تک چرائیں آنکھ مرگ ناگہاں ...

    مزید پڑھیے

    قدم قدم پہ گرے اٹھے بار بار چلے

    قدم قدم پہ گرے اٹھے بار بار چلے تمام عمر اسی طور ہم گزار چلے زمانہ گزرا کہ دل نذر حادثات ہوا اب ایک جاں تھی اسے زندگی پہ وار چلے فزوں کچھ اور ہوا بندشوں سے جوش جنوں رہا ہوئے جو قفس سے تو سوئے دار چلے ادائے لغزش رندان بادہ مست کہاں مچل مچل کے نسیم چمن ہزار چلے رکوں تو گردش شام و ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 3 سے 3