کم کسی کشتۂ آلام کی پرسش کی ہے
کم کسی کشتۂ آلام کی پرسش کی ہے ورنہ دنیا نے تو خود اپنی پرستش کی ہے ہم ہی کم فہم تھے سمجھے ستم ایجاد تمہیں تم نے تو ہم پہ عنایات کی بارش کی ہے سچ تو یہ ہے کہ برابر کے ہیں مجرم دونوں آپ کی نظروں نے دل سے مرے سازش کی ہے زندگی قرض سمجھ کر میں جئے جاتا ہوں اب تمنا نہ صلے کی نہ ستائش کی ...