فروغ کثرت جلوہ سے خود تماشا ہوں
فروغ کثرت جلوہ سے خود تماشا ہوں
میں اس کے سامنے بیٹھا ہوں اور تنہا ہوں
نگاہ شوق و دل مضطرب ہیں زاد سفر
شکستہ پا ہوں سر رہ گزار بیٹھا ہوں
بڑھاؤں دست طلب کیا کہ ظرف مانع ہے
لب فرات کھڑا ہوں میں اور پیاسا ہوں
میں اپنی ذات میں اک کائنات ہوں خود بھی
اگرچہ ذرہ ہوں لیکن محیط صحرا ہوں
بکھیرتا ہوں فضاؤں میں قہقہے اطہرؔ
متاع درد کو دل میں چھپائے پھرتا ہوں