ہر قدم تھے نئے صیاد نئے دام کے ساتھ

ہر قدم تھے نئے صیاد نئے دام کے ساتھ
دور ہوتی گئی منزل مری ہر گام کے ساتھ


جسم محبوس ہے اور حکم زباں بندی ہے
کتنے الزام ہیں وابستہ مرے نام کے ساتھ


نشۂ تلخیٔ دوراں کا اثر کیا کہنا
زندگی رقص میں ہے گردش ایام کے ساتھ


اتنی خوش رنگ یہ کافر کبھی پہلے تو نہ تھی
خون حسرت تو نہیں ہے مئے گلفام کے ساتھ


روز و شب کس کے تجسس میں صبا رہتی ہے
فرش گل پر بھی نہ سوئی کبھی آرام کے ساتھ


بیچتے ہیں سبھی ایمان مگر فرق یہ ہے
کوئی زنار پہن کر کوئی احرام کے ساتھ


نیند آنکھوں میں کھٹکتی ہے ہماری اطہرؔ
لوگ کانٹوں پہ بھی سو جاتے ہیں آرام کے ساتھ