رو بہ رو سب ہیں کوئی گوش بر آواز نہیں

رو بہ رو سب ہیں کوئی گوش بر آواز نہیں
یہ وہ انجام ہے جس کا ابھی آغاز نہیں


عرصۂ حشر ہے یا رب کہ ہے بزم گیتی
کسی آواز میں شامل کوئی آواز نہیں


وقت مجھ کو نظر انداز نہیں کر سکتا
میں ابھی وقت کے آگے سپر انداز نہیں


دل ہر ذرہ کی دھڑکن میں سمک تا بہ‌‌ سما
بازگشت اس کی ہے جس کی کوئی آواز نہیں


کیا یہی شہر محبت ہے جہاں میرے لیے
وا اک آغوش نہیں ایک بھی در باز نہیں


ساز ہستی کے پس پردہ بہ انداز کشش
کوئی آہنگ کوئی لے کوئی آواز نہیں


روح مصروف پذیرائی ہے کس کی اطہرؔ
کوئی آہٹ کوئی دستک کوئی آواز نہیں